ترکی نے اپنی سیکیورٹی فورسز کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ تارکین وطن کو سرحد عبور کرنے سے نہ روکیں، اور 2016ء میں یورپی یونین سے طے ہونے والے سمجھوتے پر کم از کم عارضی طور پر عمل درآمد نہ کریں۔
یہ فیصلہ جمعرات کے روز شمالی شام کے ادلب کے علاقے میں شامی حکومت کی افواج کے ہاتھوں 33 ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کیا گیا۔
دسمبر سے اب تک تقریباً 10 لاکھ شامی پناہ گزین بے دخل ہو کر ترکی کی سرحد کے قریب جمع ہیں۔
ترکی نے پہلے ہی تقریباً 40 لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔
اس سے قبل جمعے کے روز تقریباً 300 تارکین وطن ترکی کے صوبہ ادرین کی جانب جاتے ہوئے دیکھے گئے، جو یونان کی سرحد کے قریب واقع علاقہ ہے۔
ذرائع ابلاغ کی اطلاع کے مطابق، شام سے بے دخل ہونے والوں کے علاوہ اس گروپ میں ایرانی، عراقی، پاکستانی اور مراکش کے شہری بھی شامل ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ پناہ گزین ایواک کے علاقے کی جانب جا رہے ہیں ہیں جہاں سے وہ کشتی کے ذریعے یونان کے جزیرے، لیبوس کے سفر کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ماضی میں تارکین وطن یہاں سے یورپی یونین کے ملکوں،خاص طور پر یونان اور بلغاریہ جانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔