ترکیہ کے انتخابات ملکی معیشت پر کیسے اثر انداز ہو رہے ہیں؟

فائل فوٹو

ترکیہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر رجب طیب ایردوان سمیت کوئی بھی امیدوار 50 فی صد کی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکا جس کے بعد آئندہ اتوار کو رن آف الیکشن ہوں گے۔جس میں صدر رجب طیب ایردوان اور اپوزیشن رہنما کمال کلچدار اولو مدِ مقابل ہوں گے۔

یہ رن آف الیکشن ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب بیشتر تجزیہ کار رجب طیب ایردوان کی غیر روایتی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ملک کے بینکنگ اسٹاک انڈیکس میں اب تک نو فی صد سے زائد گراوٹ آ چکی ہے جب کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر صدر ایردوان کی پالیسی کا تسلسل برقرار رہا تو ملک میں افراطِ زر میں مزید اضافہ ہوگا۔

ترکیہ میں افراطِ زر میں اضافہ ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب صدر ایردوان کی معاشی پالیسی کے تحت ملک میں شرح سود انتہائی کم ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اتوار کو ترکیہ میں ہونے والے انتخابات کے بعد پیر کو ملک کی اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار رہی اور شیئر بازار میں حصص لگ بھگ چھ فی صد نیچے آئے۔ یہ رواں برس فروری کے بعد مارکیٹ میں سب سے بڑی مندی ہے۔

گزشتہ چھ ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں ترکیہ کی کرنسی 'لیرا' کو مسلسل گراوٹ کا سامنا ہے۔ اس وقت ایک ڈالر کی قدر 19.67 لیرا کے برابر ہے۔ مارچ میں ڈالر کے مقابلے میں لیرا اپنی کم ترین سطح پر تھا۔ اس وقت ایک ڈالر کی قدر 19.8 ہو گئی تھی۔

SEE ALSO: ترکیہ انتخابات: صدر ایردوان مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام، دوسرے راؤنڈ کا اعلان

گزشتہ اتوار کو ملک میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے۔ پارلیمانی انتخابات میں تو صدر رجب طیب ایروادن کی جماعت 'اے کے' پارٹی کی قیادت میں قائم اتحاد 'پیپلز الائنس' نے 600 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لی تھی۔

البتہ صدارتی انتخاب میں کسی بھی امیدوار کو 50 فی صد ووٹ نہیں ملے تھے۔ ترکیہ کے قانون کے مطابق صدارتی امیدوار کو کامیابی کے لیے انتخابات میں 50 فی صد ووٹوں کا حصول لازم ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں سے ترکیہ پر حکمرانی کرنے والے رجب طیب ایردوان 49.51 فی صد ووٹ حاصل کر سکے تھے جب کہ ان کے مدِ مقابل کمال کلچدار اولو 44.88 فی صد ووٹ لے سکےتھے۔

مبصرین کے مطابق اس رن آف الیکشن میں کامیاب ہونے والا امیدوار صرف یہ فیصلہ نہیں کرے گا کہ آٹھ کروڑ 50 لاکھ سے زائد آبادی کے ملک اور عسکری اتحاد نیٹو کے رکن ترکیہ کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی بلکہ یہ پالیسی بھی بنانی ہوگی کہ طرزِ حکمرانی کیا ہو اور شہریوں کو درپیش مہنگائی کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے۔

SEE ALSO: ترکیہ الیکشن: 50 فیصد ووٹ نہ ملے تو قوم کا فیصلہ تسلیم، دوسرے مرحلے کے لیے تیار ہوں گا، ایردوان

برطانیہ کے کینوپیئس گروپ میں 'ٹریڈ پولیٹیکل رسک' کے سربراہ کرسپین ہاجز کہتے ہیں کہ اگر ایردوان دوبارہ بر سرِ اقتدار آتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ ترکیہ کی معاشی پالیسیاں برقرار رہیں گی۔

'رائٹرز'سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ترکیہ میں کاروبار کو مسلسل رد کر رہے ہیں جس کی وجہ ملک کی معاشی پالیسی ہے۔ ان کے بقول افراطِ زر، کمزور کرنسی اور حکمتِ عملی کی کمی بھی وجوہات میں شامل ہیں۔

سوئیڈن میں قائم 'ایسٹ کیپٹل' سے وابستہ امرے ایکامک کہتے ہیں کہ اگر ایردوان کو کامیابی ملتی ہے تو بیرونی سرمایہ کار ترکیہ سے کنارہ کشی اختیار کریں گے۔

مالیاتی فرم 'کنڈریم' سے وابستہ رچرڈز بریگز کہتے ہیں ایردوان کو انتخابات میں برتری ملنےکا مطلب ہے کہ ترکیہ میں معیشت کی غیر روایتی پالیسیاں جاری رہیں گی۔ جس سے معاشی عدم استحکام رہے گا جب کہ لیرا کو مستحکم رکھنے کے لیے انتہائی کوششیں جاری رہیں گی۔

امریکہ کی مالیاتی کمپنی 'جے پی مورگن'کے مطابق 'لیرا' کی قدر میں رواں برس لگ بھگ پانچ فی صد کمی آ چکی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک ڈالر کی قیمت لگ بھگ 24 سے 25 لیرا کا ہونے اندیشہ ہے۔

معیشت پر نظر رکھنے والے بعض ادارے اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ لیرا کی قدر میں آئندہ 12 ماہ میں تقریباّ 50 فی صد تک کمی آ سکتی ہے۔

(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے 'رائٹرز'سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)