ترکی کی درخواست پر نیٹو ممالک کا ہنگامی اجلاس منگل کو برسلز میں ہو رہا ہے، جس میں شام سے ملحقہ ترکی کی سرحد پر سلامتی کی صورت حال سے متعلق غور کیا جائے گا۔
ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردوان نے شام اور عراق میں داعش اور کرد باغیوں کے خلاف اپنی مہم کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اُنھوں نے یہ بیان نیٹو کے برسلز میں ہونے والے اجلاس سے قبل دیا جو ترکی درخواست پر ہو رہا ہے۔
رجب طیب اردوان نے چین کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے سے قبل انقرہ کے ہوائی اڈے پر ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔ یہ ایک عمل ہے اور یہ اسی عزم کے ساتھ جاری رہے گا۔‘‘
اردوان نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ نیٹو کے رہنماؤں کی طرف سے ’’ضروری اقدامات‘‘ اٹھائے جائیں گے۔
نیٹو کے بند کمرے کے اجلاس سے قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینس اسٹالٹن برگ نے ترکی کے جنوبی سرحد پر حال ہی میں ہونے والے ایک مہلک حملے پر تعزیت کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے کہ کہا کہ’’نیٹو ان تبدیلیوں کا بڑے قریب سے مشاہدہ کر رہی ہے اور ہم اپنے اتحادی ترکی کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
نیٹو نے کہا ہے کہ اس اجلاس کی درخواست ترکی کی طرف سے ’’حالیہ دنوں میں مذموم دہشتگرد حملوں کے بعد صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر کی گئی۔‘‘
ترکی نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے ساتھ یہ بات طے پائی ہے کہ شام کے شمالی حصے میں مشترکہ طور پر ایک چھوٹے علاقے میں ’بفر زون‘ قائم کیا جائے گا۔
امریکہ عہدیدار کی طرف سے ایسے اشتراک کی تصدیق کی گئی۔
ترکی اور امریکی عہدیداروں کے مطابق مجوزہ علاقے میں مشترکہ فضائی کارروائیوں کا مقصد ’داعش‘ کے جنگجوؤں کو وہاں سے باہر دھکیلنا ہے۔
امریکہ نے ترکی کی شام میں داعش اور عراق میں کرد باغی ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کی دو جہتی حکمت عملی کی حمایت کی ہے۔
گزشتہ ہفتے ترکی میں ہونے والے تشدد کے دو واقعات کا الزام ان دو تنظیموں پر لگایا گیا تھا جو ایک دوسرے کی سخت مخالف ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اتوار کو کہا کہ انقرہ کو ’’متعلقہ دہشتگرد اہداف کے خلاف کارروائی‘‘ کا حق حاصل ہے، بشمول شمالی عراق میں واقع کردستان ورکرز پارٹی کے گڑھ کے جہاں جمعہ کی رات حملہ کیا گیا۔
2013 میں انقرہ اور کردوں کے درمیان امن معاہدے کے اعلان کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ترکی نے عراق میں اس کالعدم کرد تنظیم کو حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
گزشتہ جمعہ کو ہی ترکی نے داعش کے اہداف کو نشانہ بنانے کے علاوہ امریکی لڑاکا طیاروں کو شام میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے اپنا فوجی اڈہ استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
کردستان ورکرز پارٹی کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں کے بعد انقرہ کے ساتھ امن معاہدہ بے معنی ہو گیا ہے۔
ترک فوج نے ہفتے کی شام کو ہونے والے کار بم دھماکے کا الزام کرد باغیوں پر لگایا ہے۔ جنوب مشرق میں واقع کرد اکثریتی علاقے میں ہونے والے اس حملے میں دو فوجی ہلاک ہو گئے تھے جس سے حکومت اور علیحدگی پسند گروپ کے درمیاں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ کرد نسل کے لوگ مشرق وسطیٰ کے چار ممالک ایران، عراق، شام اور ترکی میں آباد ہیں اور ان کی کچھ تنظیمیں اپنے حقوق یا ایک علیحدہ ملک کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
کرد عراق میں اپنے شہروں پر قابض داعش کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں اور انہوں نے ترک حکومت پر داعش کے جنگجوؤں کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے۔