تیونس کے حالات کے عرب دنیا پر ممکنہ اثرات

(فائل فوٹو)

مایوسی اور بے بسی نے لوگوں کواس عمل پراکسایا اور اس کے نتیجے میں تیونس کے صدر کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ علاقے کے دوسرے ملکوں سے عوامی مظاہروں کی رپورٹیں ملی ہیں اگرچہ اب تک ان میں شرکت کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں۔ قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں کہ تیونس کے واقعات سے تمام عرب ملکوں میں حزب اختلاف کے حوصلے بلند ہوں گے۔

ساری عرب دنیا خاص طور سے شمالی افریقہ کے ملکوں کی نظریں تیونس کے حالیہ واقعات پر لگی ہوئی ہیں۔ علاقے کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عرب دنیا کے بہت سے دوسرے ملک جہاں اقتصادی حالات اچھے نہیں ہیں اور سیاسی بے چینی موجود ہے تیونس کے واقعات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

تیونس کے واقعات پر جو لوگ کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں ان میں نادیہ بھی شامل ہیں۔ نادیہ قاہرہ میں کام کرتی ہیں اور سیاحت کی صنعت سے منسلک ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ یہ علاقہ سیاحت کے نقطہ نظر سے کتنا پُرکشش ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ عرب ملکوں میں بعض افسوسناک باتیں بھی مشترک ہیں۔’’مثال کے طور پر سیاسی کشیدگی، ان ملکوں میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور آزادی اظہار کا فقدان ہے کیوں کہ بیشتر لوگ ایک عرصے سے آمرانہ حکومتوں کے تحت رہ رہے ہیں۔ مصر میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد خط افلاس کے نیچے زندہ ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ ایک نوجوان نے خود کو پارلیمینٹ کے سامنے خود کو آگ لگا کر اپنی جان دے دی‘‘۔

قاہرہ میں خود سوزی کا یہ واقعہ تیونس میں محمد بوعزیزی کے خود کو جلا کر ہلاک کرنے کے بعد ہوا جس کے بعد وہاں انقلاب کا آغاز ہوا۔ خود سوزی کے واقعات کی اطلاعات ماریطانیہ اور الجزائر سے بھی آئی ہیں۔

مایوسی اور بے بسی نے لوگوں کواس عمل پراکسایا اور اس کے نتیجے میں تیونس کے صدر کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ علاقے کے دوسرے ملکوں سے عوامی مظاہروں کی رپورٹیں ملی ہیں اگرچہ اب تک ان میں شرکت کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں۔ قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں کہ تیونس کے واقعات سے تمام عرب ملکوں میں حزب اختلاف کے حوصلے بلند ہوں گے۔

تیونس کئی لحاظ سے عرب دنیا کے بہت سے ملکوں سے مختلف ہے۔ اس ملک میں متوسط طبقہ مضبوط ہے اور اس کی معیشت کا انحصار تیل کی دولت پر نہیں۔ یہاں تعلیم کی سطح بلند ہے اور عورتوں اور مردوں کے درمیان حقوق میں مساوات زیادہ ہے۔

بیروت میں کارنیجی مڈل ایسٹ سینٹر(Carnegie Middle East Center) کے امرحمزوی کہتے ہیں کہ تیونس کے سابق صدر کی بد عنوانیوں کی نوعیت اور انکی شدت بھی علاقے کے دوسرے لیڈروں سے مختلف تھی اور وہ صدر کے اہلِ خاندان تک محدود تھی۔ ’’مصر میں کرپشن موجود ہے لیکن اس سے آبادی کا خاصا بڑا حصہ یعنی تقریباً چھہ ، سات بلکہ دس فیصد تک لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات مراکش اور الجزائر میں بھی ہیں‘‘۔

اس لوٹ مار سے فائدہ اٹھانے والوں میں اکثر سیکورٹی فورسز بھی شامل ہوتی ہیں۔ حمزوی کہتےہیں کہ تیونس میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں فوج سیاست سے دور رہی ہے اور اس نے عوامی بغاوت کو کچلنے سے انکار کردیا۔ پھر بھی فوجی حمایت سے چلنے والی حکومتوں نے تیونس کے حالات پر کڑی نظر رکھی ہے۔

تیونس میں ہونے والے مظاہروں کا ایک منظر


پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں کہ سب سے پہلے لیبیا کے لیڈر معمر قذافی نے جو عرب دنیا کے قدیم ترین ڈکٹیٹر ہیں، تیونس کے واقعات کو مسترد کر دیا۔ مصر کے صدر حسنی مبارک نے بدھ کے روز عرب لیڈروں کی اقتصادی سربراہ کانفرنس میں مختلف راہ اختیار کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے نوجوان ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں اور ہمیں ان کی تعلیم اور اقتصادی اور سماجی ترقی میں سرمایہ لگانا چاہیئے۔

عرب لیگ کے سکریٹری جنرل امر موسیٰ نے شرم الشیخ میں موجود عرب لیڈروں کو انتباہ کیا اور کہا کہ تیونس کا انقلاب ہم سے دور نہیں ہے۔ پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں کہ’’مشرقِ وسطیٰ میں حکومتیں اپنے غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ حالات کشیدہ نہ ہوں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بچنا چاہتی ہیں تا کہ لوگوں میں اشتعال پیدا نہ ہو۔ اس طرح وہ سماجی، اقتصادی یا سیاسی انقلاب کو وقتی طور سے ٹال تو سکتی ہیں لیکن اسے مستقل طور پر ختم نہیں کر سکتیں‘‘۔

صادق کہتے ہیں کہ شورش اور ہنگاموں سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ سیاسی اصلاحات شروع کی جائیں۔ علاقے کے تقریباً ہر ملک میں سیاسی اصلاحات کا فقدان ہے جہاں حکمراں ایک طویل عرصے سے اقتدار سے چمٹے ہوئےہیں۔

امر حمزوی کہتے ہیں کہ وسیع ترمعنوں میں دیکھا جائے تو تیونس میں جو واقعات ہوئے وہ وہی تھے جو دنیا کے دوسرے ملکوں میں مشرقی یورپ سے لے کر لاطینی امریکہ اور کئی ایشیائی ملکوں تک میں ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب دنیا بھی جمہوریت چاہتی ہے۔’’یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ ہم لوگ باقی انسانیت سے الگ تھلگ نہیں ہیں۔ عرب چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں ان کے سامنے جوابدہ ہوں، وہ اختیارات کی بہتر تقسیم چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اختیارات میں توازن ہو اور باز پرس کا نظام ہو۔ وہ مطلق العنان حاکم نہیں چاہتے اور تونس میں وہ یہی جذبہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے‘‘۔

حمزوی کہتے ہیں کہ ہر ملک میں ایک ایسا نقطہ آتا ہے جب تبدیلی نا گزیر ہو جاتی ہے ۔ لیکن وہ نقطہ کب آئے گا اور حالات کیا رخ اختیار کریں گے اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔