ٹی ٹی پی کے فورسز پر حملے جاری،جنگ بندی برقرار رہنے کا بھی دعویٰ

فائل فوٹو

خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پولیس پر ہونے والے حملوں کی ذمے داری قبول کرنے کے ساتھ حکومت سے جنگ بندی کے معاہدے پر قائم رہنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہیں۔

جنگ بندی پر قائم رہنے کے ان دعوؤں کے باوجود ٹی ٹی پی کی طرف سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر مبصرین ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان طے پانے والی معاہدے کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔

گزشتہ تین روز کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور لکی مروت میں نامعلوم حملہ آوروں نے مختلف واقعات میں فائرنگ کر کے پولیس کے دو اہلکاروں کو ہلاک اور تین کو زخمی کیا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ان تینوں حملوں کی ذمے داری قبول کی گئی ہے۔

ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کے سوال پر ایک تحریری جواب میں بھی کہا کہ جنگ بندی برقرار ہے البتہ ان کے بقول، یہ کارروائیاں دفاع میں کی گئی ہیں۔

ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے ان کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کی تھی، جس کا دفاع کرنے کے لیے یہ حملے کیے گئے تھے ۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے رابطہ کرنے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنگ بندی کا معاہدہ بالکل برقرار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے زیادہ تر واقعات میں ٹی ٹی پی ملوث نہیں بلکہ دیگر چھوٹے گروپ ملوث ہوتے ہیں۔

SEE ALSO: ضلع خیبر میں مبینہ عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاج، تمام سیاسی جماعتیں شریک

مختلف علاقوں میں مبینہ طور پر منظر عام پر آنے والے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر حکومتی ردِعمل کے بارے میں بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ طالبان کے ساتھ زیادہ تر معاملات وفاقی حکومت کے زیر نگرانی طے کیے جاتے ہیں۔ اگر کہیں یہ عسکریت پسند غیر قانونی کارروائیوں یا تشدد کے واقعات میں ملوث پائے جائیں تو پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حرکت میں آتے ہیں۔

قبل ازیں بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ طالبان کے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ایک گروپ حکومت کے ساتھ جنگ بندی اور مستقل امن معاہدے کے بھی خلاف ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اگست کے بعد ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

’حکام کی خاموشی معنی خیز ہے‘

سیاسی اور قبائلی امور کے تجزیہ کار شکیل وحید اللہ خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور سیکیورٹی اہل کاروں پر ہونے والے مہلک حملوں اور مبینہ طور پر بعض شدت پسندوں کے صوبے میں سرگرم ہونےکی اطلاعات پر حکام کی خاموشی معنی خیز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا وجود میں آنا اور ریاستی اداروں کی عمل داری کو قبول نہ کرنے کے پیچھے کئی واضح اور غیر واضح عوامل کار فرما رہے ہیں۔

ان کےبقول عسکریت پسندوں کے پیچھے بعض قوتیں ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے یہ شدت پسند تنظیم حکومت کے ساتھ مذاکرات اور جنگ بندی کے باوجود ایسے مہلک حملوں کی ذمے داری بھی قبول کررہی ہے۔

انگریزی روزنامہ اخبار ’ڈان‘ کے پشاور میں ریذیڈنٹ ایڈیٹراسماعیل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بند ی کے معاہدے میں دونوں فریقین نے دفاع کے حق کو تسلیم کیا تھا لیکن موجودہ صورت حال میں ابہام پایا جاتا ہے۔

SEE ALSO: تحریک طالبان کے درہ آدم خیل، اورکزئی اور ہنگو میں سرگرم ہونے کی اطلاعات ، مقامی افراد کا احتجاج

ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف پولیس اہلکاروں پر ہونے والے حالیہ حملوں بلکہ سوات اور صوبے کے دیگر علاقوں میں مبینہ طالبان عسکریت پسندوں کے منظر عام پر آنے کے باوجود حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ان کے بقول اس معاملے پر جب تک حکومت کوئی واضح پوزیشن نہیں لیتی صورتِ حال مبہم ہی رہے گی۔

تشدد کے واقعات میں اضافہ

قبل ازیں پیر کو ٹی ٹی پی نے پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں سیکیورٹی فورسز کے گاڑی پر ہونے والے بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

یہ حملہ باڑہ میں شدت پسندوں کی علاقے میں مبینہ واپسی کے بعد سرگرم ہونے کے خلاف کیے گئے ایک مظاہرے کے چند گھنٹوں کے بعد ہوا تھا۔

اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کارروائی میں متعدد اہل کار ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

علاوہ ازیں ملک میں مجموعی طور پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈ یز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطا بق مجموعی طور پر ملک میں اگست کے مہینے میں عسکریت پسندوں کے 31 حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے 18 اہل کاروں سمیت 37 افراد ہلاک جب کہ 55 افراد زخمی ہوئے تھے۔