ایران جوہری معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے کے اثرات بھارت پر بھی پڑیں گے: تجزیہ کار

فائل

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے بعد اگر امریکہ ایران پر معاشی پابندیاں عاید کرتا ہے تو اس کے اثرات بھارت پر بھی کسی حد تک پڑ سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اثرات مختلف سطحوں پر پڑیں گے۔

عراق اور سعودی عرب کے بعد ایران بھارت کو تیل برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ پابندیوں کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور بھارتی معیشت متاثر ہوگی۔ اس کا اثر یہاں کی کرنسی اور مہنگائی پر بھی پڑے گا۔

بھارت گزشتہ کچھ برسوں سے ایران کے چابہار پورٹ کی تعمیر میں حصہ لے رہا ہے۔ وہ افغانستان سے تجارت کے لیے اس کا استعمال کرنا چاہتا ہے۔ نئی امریکی پابندیاں اسے بھی متاثر کر سکتی ہیں۔

بھارت نے اس پروجکٹ میں 85 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اگر وہ مزید سرمایہ کاری کرتا ہے تو یہ معاملہ بھارت اور امریکہ کے مابین تنازعے کا سبب بن سکتا ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار قمر آغا نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پابندیوں سے تیل کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے تو اس کا اثر بھارت کی معیشت پر بھی پڑے گا۔ تیل کی قیمتیں بڑھنا شروع بھی ہوگئی ہیں۔ بھارت نے شرح نمو کا جو آٹھ فیصد ہدف مقرر کر رکھا ہے وہ متاثر ہوگا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ چابہار پورٹ ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے توسط سے بھارت وسطی ایشیائی ملکوں تک پہنچ سکتا ہے۔

حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پابندیاں لگتی ہیں تب بھی ایران سے تیل کی درآمد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

بھارت نے امریکہ، ایران، سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ اپنے رشتوں کو وسعت دی ہے۔ کیا پابندیوں کے بعد ان ملکوں سے بھارت کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا، اس سوال پر قمر آغا کہتے ہیں کہ بھارت کے کسی ملک کے ساتھ رشتوں کا انحصار دوسرے ملکوں سے اس کے رشتوں پر نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اس کے اسرائیل سے بھی رشتے ہیں اور فلسطین سے بھی ہیں۔

بھارت نے گزشتہ سال ’شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن‘ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جون میں چین کے شہر کوئینگ داو میں ہونے والے اس کے اجلاس میں اسے اور پاکستان کو باضابطہ اس میں شامل کیا جائے گا۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو بھی اس میں شامل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو بھارت اس گروپ کا جسے امریکہ مخالف بلاک سمجھا جاتا ہے ایک ممبر بن جائے گا۔

ایک تجزیہ کار سہاسنی حیدر کے مطابق اس قدم سے ایران مخالف ممالک جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل مشتعل ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھارت کو ایک متوازن موقف اختیار کرنا ہوگا۔