|
امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زور دیا ہے کہ افغانستان کو مستقبل میں دی جانے والی مالی امداد کا دارومدار طالبان رہنماؤں کی جانب سے امریکی فوجی ساز و سامان کی واپسی پر ہوگا۔
انہوں نے یہ بات اپنی دوسری مدت صدارت کے لیے پیر کو حلف اٹھانے سے قبل کہی۔
ٹرمپ نے اپنے ریمارکس میں نوٹ کیا کہ سابق صدرجو بائیڈن کی حکومت نے طالبان کو اربوں ڈالر دیے۔
"انہوں (بائیڈن حکومت) نے ہمارا فوجی سازوسامان، اس کا ایک بڑا حصہ دشمن کو دیا،" ٹرمپ نے کہا۔
SEE ALSO: امریکہ سے اربوں ڈالر افغانستان جا رہے ہیں، ٹرمپ، کوئی مالی امداد نہیں لی: افغان طالبانٹرمپ نے مزید کہا،اگر ہم سالانہ اربوں ڈالر ادا کرنے جا رہے ہیں، تو افغانستان کو بتائیں کہ جب تک وہ ہمارا فوجی سازوسامان واپس نہیں کرتے ہم انہیں رقم نہیں دیں گے۔ ..." ہم انہیں چند روپے دیں گے۔ ہم فوجی سازوسامان واپس چاہتے ہیں۔"
تاہم، ٹرمپ نے اس بارے میں وضاحت نہیں کی۔
صدر ٹرمپ 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے معاملے پر گفتگو کر رہے تھے۔ انخلا کے دوران امریکہ اور نیٹو افواج کے زیرِ استعمال اسلحے کی بڑی مقدار افغانستان میں رہ گئی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ اسلحہ افغان طالبان نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
بعد ازاں، سال 2022 میں جاری کی گئی امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان سے انخلا کے وقت سات ارب ڈالر مالیت کا فوجی سازو سامان وہاں چھوڑ دیا تھا۔
SEE ALSO: افغان جنگ کا خاتمہ درست فیصلہ تھا، فلسطینی امن کے مستحق ہیں، بائیڈن کا خارجہ پالیسی کا دفاعاس سازو سامان میں ہوائی جہاز، فضا سے زمین پر حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ، عسکری گاڑیاں، ہتھیار، کمیونیکیشنز کا سامان اور دوسری اشیا شامل تھیں۔
طالبان نے ملک کی حکمرانی سنبھالنے کے بعد اس سارے سازو سامان کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
اسکے بعد سے طالبان حکمران اپنے یوم فتح کے موقع پر ہر سال اس سازوسامان کی نمائش کرتے آرہے ہیں۔
افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کا انخلاء فروری 2020 کے دوحہ معاہدے کے تحت ہوا جس کے لیے ٹرمپ انتظامیہ نے اس وقت کے باغی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔
SEE ALSO: طالبان خواتین کو انسان نہیں سمجھتے: ملالہ یوسف زئیبائیڈن نے ملک سے فوجی انخلاء کو مکمل کیا۔ انخلاء کا دفاع کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا تھا کہ ان کے پاس دو ہی راستے تھے، یا تو اس معاہدے پر عمل کرتے یا پھر طالبان سے لڑنے کے لیے تیار رہتے۔
انخلاء کے بعد بائیڈن حکومت نے طالبان کو بین الاقوامی سطح پر بڑی حد تک الگ تھلگ کر دیا اور گروپ پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔
تاہم، امریکہ اب بھی افغانستان کیلئےسب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جو شدید ترین انسانی بحران سے دوچار ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی حکام نے بعض امریکی قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کے لیے طالبان کے ساتھ سفارتی کوششیں کی ہیں۔
اس کے علاوہ واشنگٹن نے ان افغان اتحادیوں کو امریکہ منتقل کرنے میں مدد کی ہے جنہوں نے اپنےملک میں موجود امریکی افواج کی مدد کی تھی۔
ٹرمپ نے اپنے ریمارکس میں جن اربوں ڈالرز کا حوالہ دیا وہ ممکنہ طور پر افغانستان میں انسانی ہمدردی کے پروگراموں کے تحت اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے بھیجی جانے والی رقوم ہیں۔
واشنگٹن افغانستان کو امداد دینے والا بنیادی عطیہ دہندہ ہے۔ انخلاء کے بعدسے گزشتہ تین سالوں کے دوران امریکہ نے افغانستان کے لیے انسانی امداد پر تقریباً تین ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔