امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ جنوری کے فسادات کے سلسلے میں کیس کی سماعت کرنے والی جج پر اعتراض کر دیا ہے۔
سابق صدر کے مطابق یہ کیس واشنگٹن ڈی سی سے منتقل کر دینا چاہیے کیوں کہ یہاں کے مکینوں نے ان کے خلاف بڑی تعداد میں ووٹ دیے تھے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں جیوری کے ارکان کا تعلق رجسٹرڈ ووٹرز سے ہونا چاہیے۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل' پر لکھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان جج کی موجودگی میں انہیں انصاف مل سکے گا۔
ٹرمپ کسی بنیاد کے بغیر یہ دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ 2020 کا الیکشن ان سے چرایا گیا تھا جب کہ وفاقی وکیل استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس یہ ٹرمپ تھے جنہوں نے اس انتخاب کو چوری کرنے کی کوشش کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی ضلعی کورٹ نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔
اس کیس کی جج تانیہ چٹکان نے اس سے قبل ان تمام 38 افراد کو، جن پر جنوری چھ کے فسادات کا الزام تھا، سزائیں سنائی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب سابق صدر کے وکلا کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی نائب صدر مائک پینس کو کبھی بھی انتخابات کے نتائج کو بدلنے کا نہیں کہا تھا۔
وکلا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ چاہتے تھے کہ الیکشن فراڈ کے الزامات کی تحقیق کے مکمل ہونے تک پینس کو الیکشن کے نتائج کی تصدیق کو روک دینا چاہیے۔
ٹرمپ کے وکیل جان لائرو نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ کی پینس سے استدعا ان کے امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے حقوق کے مطابق تھی۔
مائک پینس ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ہی 2024 کے امریکی انتخابات کے لیے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار بننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اتوار کو ایک بیان میں ٹرمپ کے وکیل کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا دسمبر 2020 میں یہ خیال تھا کہ پینس کے پاس انتخابی نتائج کو روکنے کا اختیار ہے۔ جب کہ پانچ جنوری 2021 میں ٹرمپ کے وکلا نے انہیں بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پینس ووٹنگ کے نتائج کو مسترد کر دیں۔
انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو بتایا کہ "وہ (صدر ٹرمپ) چاہتے تھے کہ میں انتخابی نتائج کو تبدیل کر دوں جب کہ میرے پاس الیکشن کے نتائج کو تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔"
خیال رہے کہ امریکی محکمۂ انصاف کی جانب سے ٹرمپ پر 45 صفحات پر مشتمل فردِ جرم میں 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج تبدیل کرنے کے لیے دھوکہ دہی سے کام لینے اور سرکاری امور میں خلل کی سازش کے الزاما ت لگائےگئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
محکمۂ انصاف کی طرف سے عائد کردہ فردِ جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے موجودہ صدر جو بائیڈن سے صدارتی الیکشن میں اپنی شکست کو تبدیل کرنے کی کوشش میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنے اور جھوٹ پھیلانے کی سازش کی۔
ٹرمپ پر چار الزامات عائد کیےگئے ہیں جن میں سرکاری امور میں رکاوٹ ڈالنا، سرکاری کام کو روکنے کی سازش، امریکہ کو دھوکہ دینے اور دوسروں کو ان کی آئینی ذمہ داریاں انجام دینے سے روکنے کی سازش کرنا شامل ہیں۔
امریکی قانون کے مطابق سرکاری عمل کی راہ میں رکاوٹ کی سزا 20 سال کی قید ہے۔ ٹرمپ پر عائد الزامات میں سرکاری کارروائی سے مراد چھ جنوری 2021 کو امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹورل ووٹوں کی گنتی کے ذریعےالیکشن میں جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کرنا ہے۔سرکاری کام کو روکنے کی سازش کی سزا بھی 20 سال قید ہے۔
خیال رہے کہ چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر چڑھائی میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروپوں 'اوتھ کیپرز' اور 'پراؤڈ بوائز' کے اراکین سمیت ایک ہزار افراد پر الزامات لگائے گئے ہیں جن میں 100 افراد کو یا تو سزا سنادی گئی ہے اور یا انہوں نے اقبالِ جرم کرلیا ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق امریکہ کے خلاف دھوکہ دہی ، چال یا فریب سے یا بے ایمانی کے ذریعہ فراڈ کرنے کی سزا پانچ سال قید ہے۔
ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے بے ایمانی، فراڈ اور دھوکہ دہی کے ذریعہ انتخابات کے نتائج کی گنتی اور ان کی توثیق کے عمل کی راہ میں خلل ڈالا۔