امیگریشن پالیسیوں کے حوالے سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو پیر کے روز اپنی اپنی سوچ پر قائم رہے، ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے جاری کارروائی کو سراہا جب کہ ٹروڈو نے اپنے ملک میں شامی مہاجرین کی کامیابی کی تعریف کی۔
ٹروڈو نے کینیڈا میں 40000 شامیوں کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی شامی مہاجر کے امریکہ میں داخلے پر غیر معینہ مدت تک پابندی چاہتے ہیں؛ جو اُن کی اُس پالیسی کا ایک حصہ ہے جس پر عدالت نے روک لگادی ہے، جس کے تحت مسلمان اکثریتی ملکوں سے آنے والوں کے سفر پر پابندی لگائی گئی ہے، جن کا ماضی میں دہشت گرد حملوں کا ریکارڈ رہا ہے۔
جب اُن سے پوچھا گیا آیا کینیڈا میں شامیوں کی موجودگی سے امریکہ کی شمالی سرحد محفوظ رہے گی، ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ اخباری کانفرنس کو بتایا کہ ’’آپ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے‘‘۔
تاہم، حالیہ دِنوں امریکی امیگریشن کی جانب سے جرائم پیشہ ریکارڈ کے حامل تارکینِ وطن کو پکڑنے اور ملک بدر کرنے کی غرض سے مارے جانے والے چھاپوں کے بارے میں، امریکی سربراہ نے کہا کہ ’’ہم اُنھیں باہر نکال کر دم لیں گے۔ میں وہی کچھ کر رہا ہوں جو میں نے‘‘ صدارتی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا۔
ٹرمپ کے بقول ’’ہم جرائم پیشہ افراد، منشیات فروشوں کو ڈھونڈ نکالیں گے۔۔۔ ہم خراب لوگوں کو پکڑیں گے۔ اس عمل سے لوگ بہت ہی زیادہ خوش ہوں گے‘‘۔
ٹرمپ نے غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف حکومت کے چھاپوں کو ’’عام فہم معاملہ‘‘ قرار دیا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ حالیہ دِنوں کے دوران جرائم پیشہ ریکارڈ رکھنے والے 680 افراد میں سے 75 فی صد غیر قانونی تارکین وطن کو پکڑ لیا گیا ہے۔
ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا میں بسنے والے شامی ’’بے انتہا کامیاب‘‘ ہیں، اور یہ کہ ’’ہمارے اتحادی جانتے ہیں‘‘ کہ کینڈا جنگ زدہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو خوش آمدید کیوں کہتا ہے۔
تاہم، کینڈا کے سربراہ نے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں پر نکتہ چینی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کینیڈا والے کبھی نہیں چاہیں گے‘‘ کہ وہ ’’کسی دوسرے ملک جائیں اور اُن کو لیکچر دیں‘‘۔
دونوں سربراہان کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ اُنھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی پہلے ہی بڑھی ہوئی سطح کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ ٹروڈے نے کہا کہ سرحد پار دو ارب ڈالر کی یومیہ لین دین ہوتی ہے۔
اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ سنہ 1994 کے شمال امریکی آزادانہ تجارت کے سمجھوتے پر یا تو دوبارہ گفت و شنید کریں گے یا پھر اسے ختم کر دیں گے۔ سمجھوتے میں امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو شامل ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سمجھوتے میں ایسی شرائط درج کی جائیں جو امریکہ کے بہتر مفاد میں ہوں۔
لیکن، اوول آفس میں ٹروڈو کے ساتھ ملاقات اور دوپہر کے کھانے کے بعد، ٹرمپ نے کہا کہ کینیڈا کے ساتھ امریکی تجارت کے مسائل ’’شدت کے لحاظ سے میکسیکو کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں‘‘، جب اُنھوں نے میکسیکو کے معاملات کو ’’انتہائی غیر منصفانہ‘‘ قرار دیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اور کینیڈا اپنے تجارتی تعلقات پر پھر سے نظر ڈالیں گے۔ ’’ہم انھیں مزید بہتر بنائیں گے‘‘۔
اس سے قبل، وائٹ ہاؤس میں پیر کے روز ہونے والی ملاقات میں، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا اعادہ کیا۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا ایک ’’بہت بڑا مسئلہ‘‘ ہے، جس سے وہ ’’ٹھوس طریقے سے‘‘ نبردآزما ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹروڈے نے کہا کہ امیگریشن اور قومی سلامتی کے حوالے سے، ’’اپنے شہریوں کو محفوظ بنانے کے لیے، ہمارے خیالات انتہائی یکساں ہیں‘‘۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ملک چاہتے ہیں کہ خواتین کاروبار اور کاروباری ساجھے داری کو فروغ دینے کے لیے ایک ’نئی ٹاسک فورس‘ تشکیل دی جائے۔
کینیڈا اور امریکہ کے لیے تجارتی تعلقات اہمیت کے حامل ہیں، ایسے میں جب کینیڈا کی 75 فی صد برآمدات امریکہ کے ساتھ ہوتی ہیں؛ جب کہ امریکہ کینیڈا کے ساتھ 18 فی صد اشیا برآمد کرتا ہے۔
اپنے ایک روزہ دورے میں، ٹروڈو نے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر پال رائن اور سینیٹ کے اکثریتی قائد، مِچ مکونیل سے بھی ملاقات کی۔