امریکی تجارتی شراکت داروں کو نئے محصولات کی دھمکی کے بعد صدر ٹرمپ نے تجارت کے عالمی ادارے کو اپنا ہدف بنایا۔
انہوں نے کہا ہےکہ وہ ہمارے ساتھ کئی برسوں سے بہت برا برتاؤ کر رہے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ڈبلیو ٹی او کے ساتھ بہت نقصان ہو رہا تھا۔ اور ا ب ہم کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رہے۔ لیکن اگر وہ ہمارے ساتھ مناسب برتاؤ نہیں کرتے تو ہم پھر ہم کچھ کریں گے۔
ٹرمپ نے یہ بات ان نیوز رپورٹس کےبعد کہی کہ وائٹ ہاؤس نے ایک بل کا مسودہ تیار کر لیا ہے جو صدر کو ڈبلیو ٹی او کےدائرہ اختیارسے باہر محصولات کے ریٹس طے کرنے کی اجازت دے گا۔ اس سے بین الاقوامی تجارتی ادارے کے ساتھ امریکی وابستگیاں موثر طور پر ختم ہو جائیں گی۔
اسی دوران دوسرے ملک جوابی کارروائی کر رہے ہیں ۔کینڈا نے اسٹیل اور المونیم پر امریکی ٹیکسوں کے جواب میں امریکہ کے 12.6 ارب ڈالر کے سامان پر محصولات عائد کر دیے ہیں ۔چین سویا بین سمیت امریکی سامان پر 34 ارب ڈالر کے جوابی محصولات لگانے کے لیے تیار ہے۔
یورپی یونین جولائی کے وسط تک اسٹیل کی در آمدات ختم کرنے کے لیے اقدامات شروع کر سکتا ہے۔ یورپی یونین کی تجارتی کمشنر سسیلیا مالم سٹرام کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ پر یہ بالکل واضح تھا کہ اگر وہ المونیم اور اسٹیل پر محصولات عائد کریں گے تو ہم انہیں غیر قانونی سمجھیں گے اور اسے عالمی ادارہ تجارت کے ساتھ معاہدوں کی پاسداری نہیں سمجھیں گے اور اس کے نتائج بر آمد ہوں گے۔
یورپی یونین نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر ٹرمپ غیر ملکی کاروں پر پہلے سے زیادہ سخت کنٹرول کرنے کے اپنے منصوبوں پر عمل کریں گے تو وہ امریکی سامان پر 290 ارب ڈالر کے محصولات عائد کر دے گا۔
اگرچہ صدر کا إصرار ہے کہ ان کے حربے امریکیوں کےلیے بہتر تجارتی معاہدوں کی وجہ بنیں گے تاہم بہت سے تجزیہ کار متفکر ہیں۔
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے ماہر اقتصادیات جیفری سکاٹ کہتے ہیں کہ ہم غلط سمت جا رہےہیں ۔ہم اپنی معیشت پر بوجھ بڑھا رہے ہیں ۔ ہم ضابطوں پر مبنی کثیر فریقی تجارتی نظام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں جو جنگ کے بعد کے دور میں امریکی خوشحالی کا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی معیشت میں امریکی اثر و رسوخ کا ایک ذریعہ رہا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ ایک بھر پور تجارتی جنگ، تجارتی حجم میں کمی ، رسدی سلسلے میں خلل اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی کی وجہ سے عالمی اقتصادی ترقی کو متاثر کرے گی ۔ لیکن ٹرمپ امریکی معیشت کے استحکام اور لچک کا حوالہ دیتے ہوئے بظاہر اس صورت حال کے وقوع پذیر ہونے سے فکر مند دکھائی نہیں دیتے۔