امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے کا اعلان اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اور ان کے انتخابی حریف بینی گینز کے وائٹ ہاؤس کے دورے سے قبل کر دیں گے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کے دونوں رہنما آئندہ ہفتے منگل کو وائٹ ہاؤس کا دورہ کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ری پبلکن پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے فلوریڈا روانہ ہو رہے تھے۔ طویل عرصے سے التوا کے شکار امن منصوبے کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ ایک بہترین منصوبہ ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو لازمی طور پر قابل عمل ہو گا۔
واضح رہے کہ اسرائیل میں مارچ میں ایک بار پھر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ان میں بن یامین نیتن یاہو اور بینی گینز کی جماعتیں ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گی۔ یہ ایک سال میں اسرائیل میں تیسری بار الیکشن ہوں گے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم پر حزب اختلاف کے رہنما بینی گینز بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہیں جب کہ بنیامین نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ وہ اپنا اقتدار بچا سکیں۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ان کو حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہے کہ دو سیاسی حریف ایک ساتھ وائٹ ہاؤس آئیں گے۔ ایسا انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنا۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ دونوں اس منصوبے کو پسند کریں گے کیوں کہ وہ امن دیکھنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطین کے رہنماؤں کو وائٹ ہاؤس مدعو نہیں کیا گیا جب کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ سامنے آنے سے قبل ہی مسترد کر چکے ہیں۔
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام پر فلسطینی پہلے ہی ناراضگی کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ امریکہ 2018 میں اپنا سفارت خانہ بھی یروشلم منتقل کر چکا ہے۔ فلسطینیوں کی خواہش ہے کہ مشرقی یروشلم ان کی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت ہو۔
فلسطینی امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان پر بھی شدید رد عمل ظاہر کرتے رہے ہیں ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری قواعد کے مطابق ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکی حکام نے فلسطینیوں سے رابطہ کرکے آگاہ کیا تھا کہ اس امن منصوبے سے ان کو بھی بہت سی مراعات حاصل ہوں گی۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ ہو سکتا ہے ابتدا میں ان کا ردعمل منفی ہو، لیکن درحقیقت یہ ان کے لیے ایک انتہائی مثبت اقدام ہے۔
امریکی انتظامیہ نے جون 2019 میں اس امن منصوبے کے معاشی حصے کے حوالے سے کچھ معلومات سے آگاہ کیا تھا، جس کے تحت فلسطینی علاقوں اور اس سے منسلک عرب ممالک میں آئندہ 10 سال میں 50 ارب ڈالرز سے زائد کی بین الاقوامی سرمایہ کاری ہوگی۔
فلسطینی حکام نے اس کو مسترد کرتے ہوئے بے عزتی سے تعبیر کیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ مغرب ان کی طرف صرف پیسہ پھینک کر دو ریاستی حل کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
تین سال قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے صدر بننے کے بعد سے وائٹ ہاؤس اس امن منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ تاہم، اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام کے باعث اس کا اجرا تعطل کا شکار رہا ہے۔