امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز روس پر نئی تعزیرات عائد کر دی ہیں۔ اُنھوں نے اُس قانون سازی پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد گذشتہ سال کے امریکی انتخاب میں مداخلت پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے، جس میں مبینہ طور پر روس نے عہدہٴ صدارت میں کامیابی کے حصول میں اُن کی مدد کی تھی۔
ٹرمپ نے اس اقدام پر اعتراض کیا تھا، چونکہ اس میں کانگریس نے نظرثانی کے لیے 30 دِن کی مدت رکھی تھی، تاکہ ٹرمپ کو تعزیرات میں نرمی برتنے کی اجازت نہ مل سکے۔ تاہم، کانگریس کے دونوں ایوانوں نے اس قانون سازی کے حق میں بڑھ چڑھ کر ووٹ دیے تھے، جس کے باعث بل پر دستخط سے انکار کی صورت میں، اُن کے ویٹو کے کسی خدشے سے نمٹا جا سکے۔
قانون کے بارے میں
اس قانون کے تحت روسی گیس اور تیل کے اداروں کے ساتھ وابستہ امریکی کمپنیوں پر لین دین کی نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں؛ اور انتخاب میں روسی مداخلت پر سابق صدر براک اوباما کی جانب سے عائد کردہ تعزیرات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جس میں امریکہ میں بند کی گئی دو عمارتیں شامل ہیں جو روسی سفارت کاروں کے زیر استعمال تھیں۔
جوابی اقدام کرتے ہوئے، گذشتہ ہفتے روس نے امریکہ سے کہا کہ 755 سفارت کاروں اور عملے کے کارکنان کو واپس بلایا جائے، جو روس میں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں میں کام کرتے ہیں۔
ٹرمپ تفتیش کے متعدد معاملوں پر زیادہ تر ناخوش ہیں جن میں روسی مداخلت یا اُن کے مشیروں کی جانب سے روس کے ساتھ مبینہ گٹھ جوڑ کی چھان بین کی جا رہی ہے، جسے اُنھوں نے ’’ایک مفروضہ‘‘ اور ڈیموکریٹس کی جانب سے اپنی امیدوار ہیلری کلنٹن کی ناکامی کا بہانہ قرار دیا ہے۔
اس وقت، کئی ایک معاملات کانگریس کے زیر سماعت ہیں، جب کہ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سابق سربراہ اور خصوصی مشیر رابرٹ موئلر مبینہ جرم کی چھان بین کر رہے ہیں۔