خشوگی کی سعودی قونصل خانے میں ہلاکت کا اعتراف؛ وضاحت قابلِ اعتبار ہے: ٹرمپ

بعض ڈیموکریٹ رہنماؤں نے عندیہ دیا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے اس واقعے پر سعودی عرب کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تو وہ کانگریس کے ذریعے کوئی قدم اٹھائیں گے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت سے متعلق سعودی عرب کے مؤقف پر اعتبار ہے اور وہ اس بارے میں کوئی قدم ہٹانے سے پہلے اس مسئلے پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بات کرنا چاہیں گے۔

جمعے کی شب ریاست ایریزونا میں ایک تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر نے جمال خشوگی کے قتل کے مشتبہ ملزمان کی گرفتاری سے متعلق سعودی اعلان کو " اچھا قدم" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر امریکی ردِ عمل کا تعین کانگریس سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس بارے میں امریکہ کے کسی بھی اقدام کا فیصلہ کرنے سے قبل وہ سعودی ولی عہد سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

صدر نے کہا کہ سعودی عرب امریکہ کا عظیم اتحادی ہے لیکن خشوگی کے معاملے میں جو کچھ ہو اہے وہ ناقابلِ قبول ہے۔

اس سے قبل جمعے کی شب سعودی عرب کے پبلک پراسکیوٹرکی جانب سے جاری ایک بیان میں اعتراف کیا گیا تھا کہ صحافی جمال خشوگی استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہونے والی "ہاتھا پائی" کے دوران مارے گئے تھے۔

خشوگی کی گمشدگی کے خلاف وائٹ ہاؤس کے سامنے ہونے والے ایک مظاہرے میں دو افراد نے سعودی ولی عہد اور امریکی صدر کا روپ دھارا ہوا ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ سعودی حکام کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ قونصل خانے کے اندر خشوگی کی چند لوگوں سے ملاقات ہوئی تھی جس کے دوران ان کا آپس میں جھگڑا ہوا اور اس لڑائی میں خشوگی مارے گئے۔

سرکاری بیان کے مطابق واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور اب تک 18 سعودی باشندوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ واقعے پر سعودی حکومت کے ایک سینئر مشیر سعود القحطانی اور انٹیلی جنس کے ڈپٹی چیف احمد عسیری کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ دونوں عہدیدار اطلاعات کے مطابق سعودی ولی عہد کے قریبی ساتھی تھے۔

یہ پہلا موقع ہے جب سعودی عرب نے جمال خشوگی کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے جو دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لاپتا تھے۔

ترک حکام مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ انہیں دستیاب اطلاعات کے مطابق خشوگی کو قونصل خانے میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد قتل کردیا گیا ہے لیکن سعودی حکومت اس الزام کی تردید کرتی آ رہی تھی۔

ترک اہلکار سعودی قونصل خانے کی تلاش کے بعد باہر آ رہے ہیں۔

جمال خشوگی ایک معروف سعودی صحافی اور اپنی حکومت کے کڑے ناقد تھے جو سعودی حکومت کی انتقامی کارروائی کے خوف سے گزشتہ ایک سال سے خود ساختہ جلاوطنی پر امریکہ میں مقیم تھے۔

خشوگی دو اکتوبر کو بعض دستاویزات کے حصول کے لیے استنبول کے سعودی قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد وہ باہر نہیں آئے۔

جمعے کو سعودی حکومت کے اعترافی بیان کے بعد وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیاہے کہ امریکہ خشوگی کے قتل کی بین الاقوامی تحقیقات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے سعودی حکومت کے بیان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی حکومت سے معاملے کی شفاف تحقیقات کرانے اور قتل پر سخت ردِ عمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بعض ڈیموکریٹ رہنماؤں نے عندیہ دیا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے اس واقعے پر سعودی عرب کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تو وہ کانگریس کے ذریعے کوئی قدم اٹھائیں گے۔

استنبول کے نزدیک واقع اس جنگل کا فضائی منظر جہاں ترک حکام خشوگی کی باقیات تلاش کر رہے ہیں۔

ترک حکام نے کہا ہے کہ خشوگی کی ہلاکت سے متعلق ان کی تحقیقات جاری رہیں گی۔

ترک پولیس اب تک دو بار استنبول کے سعودی قونصل خانے اور ایک بار قونصل جنرل کی رہائش گاہ کی تفصیلی تلاشی لے چکی ہے جب کہ جمعے کو بھی تفتیشی افسران نے قونصل جنرل کے ڈرائیور، قونصل خانے کے تیکنیکی عملے، اکاؤنٹنٹ اور ٹیلی فون آپریٹرز سے پوچھ گچھ کی تھی۔

خشوگی کے قونصل خانے میں قتل سے متعلق قیاس آرائیاں زور پکڑ جانے کے بعد صدر ٹرمپ کی ہدایت پر وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے رواں ہفتے سعودی عرب اور ترکی کا ہنگامی دورہ بھی کیا تھا جس کے دوران انہوں نے دونوں ملکوں کی قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔

جمعے کو وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ خبردار کرچکے ہیں کہ اگر خشوگی کی گمشدگی میں سعودی عرب کا ہاتھ ہوا تو اسے اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔