امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ کی جانب نہیں بڑھ رہا۔ تاہم ان کے بقول امریکہ مشرقِ وسطی میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات جاری رکھے گا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق صدر ٹرمپ کے ایک قریبی مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ صدر نے اپنے مشیروں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہتے۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کشیدگی کو اس نہج پر نہیں لے جانا چاہتے جس سے جنگ کے امکانات بڑھ جائیں۔
صدر ٹرمپ کے مشیر کے مطابق امریکی حساس اداروں نے صدر ٹرمپ کو رپورٹ دی ہے کہ ایران اور اس کے حلیف مشرقِ وسطی میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جس پر صدر نے امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
سنہ 2016 کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کے وعدوں میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ امریکہ بیرونِ ملک اب کسی نئی جنگ میں ملوث نہیں ہو گا۔ ان کے نزدیک عراق اور افغانستان کی جنگوں میں بے تحاشا اخراجات ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے رواں سال شام سے بھی فوجی انخلا کا حکم دیا تھا۔
جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران بھی صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جنگ کے امکان کو رد کیا۔
حالیہ دنوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں تیل بردار جہازوں پر ہونے والے حملوں کے بعد امریکہ نے عراق سے کچھ سفارتی عملہ بھی واپس بلوا لیا ہے۔
جمعرات کو صدر ٹرمپ نے سوئٹزرلینڈ کے صدر سے ملاقات میں مشرقِ وسطی کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان گریٹ مارکس نے کہا ہے کہ ایران گزشتہ 40 سال سے تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ تاہم امریکی صدر ایران کے ساتھ جنگ کے بجائے ایرانی قیادت سے مذاکرات کے لیے بھی تیار ہیں۔
صدر ٹرمپ نے 2018ء میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر دست برداری کا اعلان کیا تھا۔ لیکن صدر اپنی مختلف تقاریر میں ایران کے ساتھ معاملات کو سفارتی سطح پر حل کرنے کے اعلانات کر چکے ہیں۔
البتہ بعض نجی محفلوں میں صدر ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سمیت کچھ مشیر انہیں ایران کے ساتھ جنگ کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرس کے مطابق ایران کے معاملے پر صدر ٹرمپ اور ان کے مشیروں میں کوئی اختلاف نہیں۔ صدر ٹرمپ اہم قومی معاملات پر مشیروں سے مشورہ کرتے ہیں اور اختلافِ رائے کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
امریکہ نے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کا استثنیٰ بھی رواں ماہ ختم کرتے ہوئے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
امریکہ نے کشیدگی کے باعث اپنا ایک بحری بیڑا بھی مشرق وسطی بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ ایران نے حالیہ امریکی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ وہ بھی جوہری معاہدے سے الگ ہو کر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر دے گا۔
ایران نے جوہری معاہدے کے فریق یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کے باعث ایران کو پہنچنے والے معاشی نقصانات کے ازالے کے لیے اقدامات کریں۔