امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے ساتھ ہی دونوں جانب سے لفظوں کی جنگ بھی شدت اختیار کر گئی ہے اور امریکی صدر نے ایران کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دی ہے۔
منگل کو اپنی ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران نے امریکہ سے متعلق کسی بھی چیز پر کوئی حملہ کیا تو اسے پوری قوت سے ایسا جواب دیا جائے گا جس کے نتیجے میں اس کا نام و نشان بھی مٹ سکتا ہے۔
سلسلہ وار ٹوئٹس میں صدر کا کہنا تھا کہ ایران کی قیادت صرف طاقت اور قوت کی زبان سمجھتی ہے اور اسے اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ور فوج رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت اپنے تمام تر وسائل دہشت گردی پر صرف کر رہی ہے اور ایرانی عوام بلاوجہ مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔
بعد ازاں منگل کی شام وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران جو بھی چاہے، امریکہ اس کے لیے تیار ہے اور اگر وہ مذاکرات چاہتا ہے تو اسے امریکہ کو بتا دینا چاہیے۔
صدر کا کہنا تھا کہ ایران معاشی مشکلات جھیل رہا ہے اور اگر وہ چاہے تو بڑی آسانی اور تیزی سے اسے اس مشکل صورتِ حال سے نکالا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایران کی قیادت دشمنی پر مبنی رویہ ترک کر کے امریکہ کے ساتھ امن کی بات کرے۔
اس سے قبل اپنی ٹوئٹ میں امریکی صدر نے ایران کی جانب سے سفارت کاری کا دروازہ بند ہونے سے متعلق بیان کو ہتک آمیز اور بے سر و پہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کو حقیقت کا اندازہ ہی نہیں۔
ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے منگل کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای پر امریکہ کی پابندیاں ایرانی قوم پر حملے کے مترادف ہیں جس کے بعد امریکہ کے ساتھ سفارت کاری کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے پیر کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے خامنہ ای سمیت اعلیٰ ایرانی حکام پر نئی پابندیوں کے نفاذ کی منظوری دی تھی۔ امریکہ نے یہ پابندیاں گزشتہ ہفتے ایران کی جانب سے ایک امریکی ڈرون مار گرائے جانے کے ردِعمل میں عائد کی ہیں۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے خامنہ ای پر پابندیوں کے نفاذ کو "اشتعال انگیز اور بے سر و پہ" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "وائٹ ہاؤس پر ذہنی پسماندگی مسلط ہے۔"
منگل کو ٹی وی پر نشر کیے جانے والے ایک خطاب میں ایرانی صدر نے دوبارہ کہا تھا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ لیکن، اگر کوئی جارحیت ہوئی تو اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔
ٹرمپ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف کے خلاف بھی پابندیاں عائد کرے گی جن کا اعلان رواں ہفتے ہی متوقع ہے۔
اپنے خطاب میں صدر روحانی کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک جانب تو مذاکرات کی درخواست کر رہا ہے اور دوسری جانب وہ ایرانی وزیرِ خارجہ پر سفری پابندیاں لگا رہا ہے جو بے وقوفانہ عمل ہے۔