روس یوکرین جنگ بندی معاہدہ چاہتے ہیں، جلد پوٹن سے ملاقات کروں گا: صدر ٹرمپ

  • یوکرین اور روس کےپاس ڈیل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے: صدر ٹرمپ
  • یوکرینی عہدیداروں سے ریاض یا جدہ میں ملاقات کے لیے رابطے میں ہیں اور ملاقات کا مقصد ابتدائی جنگ بندی اور امن معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کرنا ہے: اسٹیو وٹکوف
  • روس یوکرین کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے جب کہ یوکرین کا مطالبہ ہے کہ اس کے علاقے اسے واپس کیے جائیں۔

ویب ڈیسک _ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کو منرلز معاہدے پر راضی کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں اور وہیں جمعرات کو انہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ روس بھی جنگ بندی معاہدے کے لیے تیار ہے۔

صدر ٹرمپ نے مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کو بھی ایک پیغام بھیجا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے دفاع پر خرچ نہیں کرے گا تو وہ بھی نیٹو کا دفاع نہیں کریں گے۔

صدر ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے روس اور یوکرین کے درمیان امن کے لیے اپنا وژن پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین ایک معاہدہ چاہتا ہے اور اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق ان کے خیال میں روس بھی ڈیل کرنا چاہتا ہے۔ چوں کہ وہ ایک الگ طریقے کا معاہدہ چاہتا ہے جو صرف میں ہی جانتا ہوں۔

صدر ٹرمپ کے مطابق روس کے پاس بھی ڈیل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ وہ شاید آئندہ ڈیڑھ ماہ میں روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے سعودی عرب میں ملاقات کریں گے۔

اس سے قبل مشرقِ وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے نمائندۂ خصوصی اسٹیو وٹکوف کا کہنا تھا کہ وہ جنگ بندی اور روس کے قبضے کو روکنے کے لیے یوکرینی نمائندوں سے ملاقات کرنے سعودی عرب جائیں گے۔

SEE ALSO: ٹرمپ کی یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق زیلنسکی کے بیان پر تنقید

انہوں نے کہا کہ ہم یوکرینی عہدیداروں سے ریاض یا جدہ میں ملاقات کے لیے رابطے میں ہیں اور ملاقات کا مقصد ابتدائی جنگ بندی اور امن معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کرنا ہے۔

اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ صدر ٹرمپ محسوس کرتے ہیں کہ یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی نےگزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی تلخی پر نظرثانی کی ہے۔

وٹکوف کے مطابق صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ زیلنسکی کا خط پہلا مثبت قدم تھا۔ اس خط میں کوئی معافی نہیں تھی البتہ اس بات کا اعتراف تھا کہ امریکہ نے یوکرین کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور اس خط میں شکریہ کا احساس ملتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ جمعے دورۂ واشنگٹن کے دوران صدر ٹرمپ اور یوکرینی ہم منصب زیلنسکی کے درمیان تکرار ہوئی تھی۔ بعدازاں انہوں نے صدر ٹرمپ کو ایک خط ارسال کیا تھا۔

واضح رہے کہ سال 2022 میں شروع ہونے والی روس یوکرین جنگ تاحال جاری ہے اور اس جنگ کے دوران امریکہ یوکرین کو اربوں ڈالر کی امداد سمیت انٹیلی جینس مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے رواں ہفتے کیف کے لیے عسکری مدد روکنے کا حکم دیا تھا۔

اس جنگ کے دوران روس یوکرین کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے جب کہ یوکرین کا مطالبہ ہے کہ اس کے علاقے اسے واپس کیے جائیں۔

SEE ALSO: یورپی یونین کے ایمرجینسی اجلاس میں یوکرین کے دفاع  کی حمایت کا اظہار

صدر زیلنسکی جمعرات کو برسلز میں یورپی رہنماؤں کے ایک ہنگامی اجلاس میں شریک تھے۔ اس اجلاس کے دوران یورپی یونین کے صدر اور پولینڈ کے وزیرِ اعظم ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک روس کے مقابلے میں خود کو جلد مسلح کریں گے۔

یورپین کمیشن کی صدر ارسلا وون ڈر لائین نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس میں 27 رکنی یورپی تنظیم کے بجٹ قوانین میں نرمی کی گئی ہے تاکہ رکن ممالک دفاع پر زیادہ خرچ کریں۔ اسی کے ساتھ رکن ممالک کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ آئندہ چار سال کے دوران دفاع پر 836 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں۔

یورپی رہنماؤں کے اجلاس سے قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا کہنا تھا کہ تنظیم کے رکن ممالک فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ یا روس نہیں کریں گے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔