امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رابرٹ ملر کی رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ ڈیموکریٹ رہنماؤں نے محکمۂ انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں رپورٹ کا مکمل متن فراہم کرے۔
پیر کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ رابرٹ ملر نے دیانت داری سے کام کیا ہے اور ان کی رپورٹ کا نتیجہ 100 فی صد وہی ہے جو ہونا چاہیے تھا۔
دو سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ صدر ٹرمپ نے رابرٹ ملر کی تعریف کی ہے۔ تحقیقات کے پورے عرصے کے دوران وہ ملر اور ان کی ٹیم کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے۔
پیر کو بھی صحافیوں سے گفتگو میں صدر نے شکوہ کیا کہ ان تحقیقات کا آغاز کرکے اور اتنا طویل عرصہ جاری رکھ کر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور ایسا ان کے بقول کسی اور صد ر کے ساتھ کبھی نہیں ہونا چاہیے۔
رپورٹ کا خلاصہ
رابرٹ ملر 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت اور صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روسی حکام کے درمیان رابطوں کے الزامات کی تحقیقات کر رہے تھے۔ انہیں تحقیقات کی یہ ذمہ داری انتخابات کے بعد سامنے آنے والے الزامات اور کانگریس کے دباؤ پر محکمۂ انصاف نے سونپی تھی۔
ملر نے 22 ماہ کی طویل تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ گزشتہ ہفتے اٹارنی جنرل ولیم بر کو پیش کی تھی جس کا خلاصہ اٹارنی جنرل نے خط کی صورت میں کانگریس کو بھجوایا ہے۔
خط میں اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ رابرٹ ملر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 2016ء کے انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی لیکن صدر ٹرمپ یا ان کی انتخابی مہم کے ذمے داروں نے الیکشن جیتنے کے لیے روسی حکام کے ساتھ کوئی ساز باز نہیں کی تھی۔
چار صفحات پر مشتمل خط میں اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ رابرٹ ملر نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں کہا کہ صدر نے خود پر عائد الزامات کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ لیکن خط کے مطابق ملر نے صدر کو اس الزام سے مکمل بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا ہے۔
خط میں اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ رابرٹ ملر کی رپورٹ میں صدر کے متعلق کوئی حتمی نتیجہ یا سفارش نہ ہونے کی وجہ سے وہ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل روڈ روزنسٹین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صدر کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی کا کوئی جواز نہیں۔
رابرٹ ملر کی ٹیم نے 2016ء کے انتخابات میں مداخلت کے الزام میں کل 25 روسی شہریوں پر فردِ جرم عائد کی تھی۔ لیکن چوں کہ یہ تمام افراد روس میں ہیں اور امریکہ اور روس کے درمیان تحویلِ ملزمان کا کوئی معاہدہ نہیں، لہذا ان افراد کے خلاف مقدمے کی کارروائی آگے بڑھنے کا امکان نہیں ہے۔
ملر کی ٹیم نے صدر ٹرمپ کے چھ معاونین اور مشیران کے خلاف بھی مختلف مقدمات دائر کیے ہیں جن میں سے بعض میں عدالتیں فیصلہ سنا چکی ہیں۔
اٹارنی جنرل کے خط کے مطابق رابرٹ ملر کی ٹیم 19 وکلا اور وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے 40 تفتیشی افسران پر مشتمل تھی جس نے اپنی تحقیقات کے دوران 2800 افراد کو پیشی کے سمن جاری کیے، 500 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے اور 500 سے زائد مقامات کی تلاشی لی۔
ڈیموکریٹس کا عدم اطمینان
لیکن کانگریس کے ڈیموکریٹ رہنما اٹارنی جنرل کے اس فیصلے سے مطمئن نہیں اور انہوں نے کانگریس کو رابرٹ ملر کی پوری رپورٹ پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایوانِ نمائندگان کی چھ کمیٹیوں کے ڈیموکریٹس سربراہان نے اٹارنی جنرل کو مشترکہ طور پر ایک خط لکھا ہے جس میں ان کے بھیجے گئے خلاصے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے رابرٹ ملر کی مکمل رپورٹ دو اپریل تک فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔
ڈیموکریٹ رہنماؤں نے کہا ہے کہ انہیں وہ تمام شواہد بھی فراہم کیے جائیں جو رابرٹ ملر کی ٹیم نے اکٹھے کیے ہیں اور جن کی بنیاد پر انہوں نے اپنی رپورٹ تحریر کی ہے۔
البتہ ری پبلکن رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے ڈیموکریٹس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو پسِ پشت ڈال کر آگے بڑھیں۔
ایوانِ نمائندگان کی ڈیموکریٹ اسپیکر نینسی پیلوسی اور سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے قائد چک شمر نے بھی ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ وہ مکمل طور پر بری الذمہ ہیں، ہرگز قابلِ اعتبار نہیں کیوں کہ یہ بیان رابرٹ ملر کی رپورٹ سے متصادم ہے۔
چک شمر نے امریکی سینیٹ پر زور دیا ہے کہ وہ رابرٹ ملر کی مکمل رپورٹ جاری کرنے کے مطالبے پر مشتمل ایک قرارداد بھی منظور کرے۔
لیکن سینیٹ میں قائدِ ایوان مچ مکونیل نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل کو کچھ وقت دینا چاہیے تاکہ وہ رپورٹ کا اچھی طرح تجزیہ کرکے ان حصوں کا تعین کرسکیں جو عوام کے لیے جاری ہونے چاہئیں۔