ٹرمپ کا اسٹیل، المونیم کی درآمدات پر ٹیکس واپس لینے سے انکار

جرمنی کی ایک فیکٹری سے اسٹیل کے کوائل بن کر نکل رہے ہیں۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر پال رائن اور پارٹی کے کئی اعلیٰ رہنما وائٹ ہاؤس کو نئے ٹیکس نافذ نہ کرنے پر قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جماعت ری پبلکن کے رہنماؤں کے مطالبات کے باوجود غیر ملکی اسٹیل کی درآمد پر 25 فی صد اور المونیم مصنوعات پر 10 فی صد اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز واپس لینے سے انکار کردیا ہے۔

پیر کو اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ اگر ایک "نئے اور شفاف" نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ (نافٹا) پر اتفاقِ رائے ہوجائے تو میکسیکو اور کینیڈا کو نئے ٹیکسوں سے چھوٹ دی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی برسوں تک 'نافٹا' کا معاہدہ امریکہ کو نقصان پہنچاتا رہا ہے اور اب اس پر نظرِ ثانی کے لیے تینوں ملکوں کے مابین بات چیت جاری ہے۔

صدر نے کہا کہ وہ واضح کرچکے ہیں کہ اگر نظرِ ثانی شدہ نافٹا پر اتفاقِ رائے نہ ہوا تو امریکہ اس معاہدے سے نکل جائے گا۔

لیکن ان کے بقول اگر ایسا معاہدہ ہوگیا جس میں امریکی عوام اور محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا تو کینیڈا اور میکسیکو سے اسٹیل کی درآمدات ٹیکس فری کرنے پر بات کی جاسکتی ہے۔

صدر ٹرمپ کے بقول درآمدات پر پابندیاں اور ٹیکس عائد کرکے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کے اعلیٰ حکام کے مابین 'نافٹا' کے نئے مسودے اور شرائط پر بات چیت جاری ہے جس پر نظرِ ثانی صدر ٹرمپ کا ایک اہم انتخابی وعدہ ہے۔

صدرٹرمپ کی حکومت کی جانب سے اسٹیل اور المونیم کی برآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کی نہ صرف ری پبلکن پارٹی کے بعض رہنما مخالفت کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں امریکہ کے ساتھ قریبی تجارتی روابط رکھنے والے ملکوں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان نئے ٹیکسوں سے امریکہ کے کئی اتحادیوں کی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ البتہ امریکی حکومت کا موقف ہے کہ اسے ہر سال 800 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور صدر ٹرمپ کے بقول امریکہ کو یہ نقصان پہنچانے میں اس کے "دوست اور حریف، سب ملوث ہیں۔"

صدر ٹرمپ کے بقول درآمدات پر پابندیاں اور ٹیکس عائد کرکے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ تاہم ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ ری پبلکن جماعت کے کئی رہنما بھی مجوزہ ٹیکسوں کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں امریکہ کے تجارتی مفادات کے منافی قرار دے رہے ہیں۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر پال رائن اور پارٹی کے کئی اعلیٰ رہنما وائٹ ہاؤس کو نئے ٹیکس نافذ نہ کرنے پر قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

پال رائن اور کانگریس کے دیگر اہم ری پبلکن ارکان کا موقف ہے کہ نئے ٹیکسوں سے امریکی صارفین کا بھی نقصان ہوگاکیوں کہ اس کے نتیجے میں اسٹیل اور المونیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جائیں گی جس کا کاروبار پر منفی اثر پڑے گا۔

پال رائن اور کانگریس کے دیگر اہم ری پبلکن ارکان کا موقف ہے کہ نئے ٹیکسوں سے امریکی صارفین کا بھی نقصان ہوگاکیوں کہ اس کے نتیجے میں اسٹیل اور المونیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جائیں گی جس کا کاروبار پر منفی اثر پڑے گا۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی حکومت کے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر پال رائن کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دونوں فریق ہر معاملے پر ایک دوسرے سے متفق ہوں۔

ترجمان کے بقول ان نئے ٹیکسوں کے بارے میں صدر کئی برسوں سے بات کرتے آرہے ہیں اور یہ ان کی انتخابی مہم کا بھی ایک اہم وعدہ تھا ۔

انہوں نے کہا کہ امریکی عوام نے انتخابی مہم کے دوران صدر کی کھل کر حمایت کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صدر کی ان پالیسیوں کے بھی حامی ہیں جن کا انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا۔

پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سارہ سینڈرز نے کہا کہ مجوزہ ٹیکسوں کی تفصیلات طے کی جارہی ہیں جس کے بعد ہی ان کے نفاذ کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔

یورپی یونین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے مجوزہ ٹیکس واپس نہ لیے تو یونین بھی امریکی مصنوعات – بشمول بربن شراب، بلیو جینز اور ہارلے ڈیوڈسن موٹرسائیکلوں – کی یورپ برآمد پر جوابی ٹیکس عائد کرے گی۔

کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو بھی مجوزہ ٹیکسوں پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں "قطعی ناقابلِ قبول" قرار دے چکے ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق 2016ء میں امریکہ اور کینیڈا کے درمیان تجارت کا توازن ساڑھے 12 ارب ڈالر کے ساتھ کینیڈا کے حق میں رہا جب کہ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان تجارت میں بھی امریکہ کو ساڑھے 55 ارب ڈالر تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔

کینیڈا امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے جس نے گزشتہ سال سات ارب ڈالر مالیت سے زائد کی المونیم اور چار ارب ڈالر سے زائد کی اسٹیل مصنوعات امریکہ کو برآمد کی تھیں۔

گزشتہ سال امریکہ نے جتنا اسٹیل درآمد کیا اس کا نصف کینیڈا، برازیل، جنوبی کوریا اور میکسیکو سے آیا تھا جب کہ چین سے درآمد کیا جانے والا اسٹیل امریکہ کی کل درآمدات کا دو فی صد کے لگ بھگ تھا۔