قمر عباس جعفری
ان دنوں پاکستان، امریکہ اور کئی بین الاقوامی میڈیا چینلز پر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت اس وجہ سے موضوع سخن بنی ہوئی ہے کہ مسٹر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ میں مسلمانوں کی آمد پر پابندی اور بعض اسلامی ملکوں کے خلاف سخت بیانات دیتے رہے ہیں۔جب کہ نوازشریف کے ساتھ ان کی گفتگو بہت دوستانہ اور بے تکلفانہ تھی ۔ جس پر امریکہ کے کئی زمہ دار حلقوں کی جانب سے یہ کہتے ہوئے تنقید کی گئی کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پیچیدہ اور ناہموار رہے ہیں ، خاص طور پر سلامتی امور کے حوالے سے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے ایک منتخب رہنما کی گفتگو کی تفصیلات عام کرنا سفارتی پروٹوکولز کی خلاف ورزی تھی۔
دونوں راہنماؤں کی اس ٹیلی فونک بات چیت کے متن پر مبنی پر یس ریلز وزیر اعظم ہاؤس سے جاری کیا گیاتھا، جب کہ ٹرمپ کمپین کی جانب سے دونوں رہنماوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
یہ رابطہ کیسے ہوا ، امریکی حلقوں میں اس سلسلے میں ایک نام لیا جا رہاہے اور وہ نام ہے ساجد تارڑ۔
ساجد تارڑ مسلمز فار ٹرمپ نامی تنظیم کے عہدے دار اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب سے ٹرمپ صدر منتخب ہوئے ہیں، وہ پاکستان کے سرکاری حکام سے رابطے میں ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ بعض حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی نو منتخب امریکی صدر، ٹرمپ کیلئے، ٹیلی فون کال کا انتظام اُنہوں نے کروایا تھا، اس میں کتنی حقیقت ہے۔
ساجد تارڑ نے کہا کہ تھینکس گیونگ سے پہلے ، پاکستان سے بھی اور یہاں سے بھی، کسی' نے مجھ سے کہا کہ نواز شریف، پاکستان کے بارے میں نو منتخب صدر سے بات کرنا چاہتے ہیں ، تو یہاں سے انہیں ٹیلی فون کال چلی جائے یا وہ یہاں کال کر لیں۔ اس پر میں نے پچھلے پیر کو مسٹرٹرمپ کی کیمپین کو ایک پیغام بھیجا، اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے پیغام پر ہی یہ سب کچھ ہوا۔
ساجد تارڑ کاتفصیلی انٹرویو سننے کے لیے نیچے دیئے ہوئے لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5