جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل جمعے کے روز وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ باضابطہ ملاقات کر رہی ہیں۔
اس سے قبل فرانس کے صدر امانوئیل مکخواں امریکہ کا تین روزہ سرکاری دورہ مکمل کر چکے ہیں۔
یوں لگتا ہے جیسے واشنگٹن میں سربراہان مملکت کی لگاتار آمد کا مقصد صدر ٹرمپ کو قائل کرنے کی مشترکہ کوشش کا حصہ ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ترک نہ کریں اور یورپی یونین کے رُکن ممالک کو اسٹیل اور المونئیم کی مد میں محصول سے مستقل استثنیٰ کی سہولت فراہم کریں۔
ایسے میں جب ٹرمپ اور مکخواں کے خودساختہ ’’جذباتی تعلق‘‘ کا چرچہ عام ہے، جو مکخواں کے دورے میں عیاں تھا، اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹرمپ کا مرخیل کے ساتھ تعلق نسبتاً سرد مہری پر مبنی رہا ہے۔
اِس بات کا دور دور تک شہرہ ہے کہ مارچ 2017ء میں اُن کی پہلی ملاقات تک، ٹرمپ نے مرخیل کے ساتھ ہاتھ نہیں ملایا تھا اور یہ کہ یکم مارچ کے ٹیلی فون کال تک، پانچ ماہ کے دوران دونوں سربراہان نے ایک دوسرے سے گفتگو نہیں کی تھی۔
ایرک جونز ’جانز ہاپکنز یونیورسٹی‘ میں ’یورپ اور یوروایشیائی مطالعے‘ کے سربراہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’کوئی شک نہیں امانوئیل مکخواں صدر ٹرمپ کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں زیادہ کامیاب ہیں، جب کہ آنگلہ مرخیل کو کسی قربت جتلانے کی عجلت نہیں۔ اِس کے برعکس، وہ اصول، مشترکہ اقدار اور مشترک مفادات کو اولیت دیتی ہیں‘‘۔
نائیل گارنر ’ہیریٹج فاؤنڈیشن‘ میں ’مارگریٹ تھیچر سینٹر فور فریڈم‘ کے سربراہ ہیں۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُنھیں توقع ہے کہ فرانسسی صدر کے مقابلے میں وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ محاذ آرائی اور زیادہ مخالفت والا انداز اپنا سکتی ہیں۔
بقول اُن کے ’’میرے خیال میں جرمن ٹرمپ کی بیرونی اور معاشی پالیسیوں کے زیادہ ناقد رہے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ آنگلہ مرخیل کئی امور پر مکخواں کے مقابلے میں زیادہ سخت مؤقف اختیار کرسکتی ہیں۔ لیکن، وہ یقینی طور پر ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کو بچانے کی بھی کوشش کریں گی‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ مرخیل اور مکخواں ایران کے جوہری معاہدے کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں کس حد تک یکساں سوچ کے حامی ہیں‘‘۔