اسرائیل، فلسطینی سمجھوتے تک پہنچ سکتے ہیں: ٹرمپ

یروشلم

ٹرمپ نے پیر کے روز نیتن یاہو سے گفتگو کی اور پھر منگل کو بھی اُن سے مختصر ملاقات کی، جس سے قبل اُنھوں نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ ایک گھنٹے تک گفت و شنید کی

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اس بات کا اعلان کیا کہ دونوں، اسرائیلی اور فلسطینی سربراہان ’’امن کے حصول پر تیار ہیں‘‘۔

ٹرمپ نے یہ بیان اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کے ہمراہ ’اسرائیل میوزئم ‘میں اپنے خطاب کے دوران دیا۔

ٹرمپ نے پیر کے روز نیتن یاہو سے گفتگو کی اور پھر منگل کو بھی اُن سے مختصر ملاقات کی، جس سے قبل اُنھوں نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ ایک گھنٹے تک گفت و شنید کی۔

عجائب گھر میں اپنے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ امن ممکن ہے، اگر ہم ماضی کے دکھ درد اور نااتفاقیوں کو بالائے طاق رکھ دیں اور مل کر اس بحران کے آخری حل کا عزم کرلیں، جو تقریباً نصف صدی سے مؤخر ہو کر رہ گیا ہے‘‘۔

اس کےکچھ دیر بعد، ٹرمپ اسرائیل سے روم روانہ ہوئے، یہ کہتے ہوئے کہ اسرائیلی اور فلسطینی ’’سمجھوتا کر سکتے ہیں‘‘۔

ٹرمپ نے اسرائیل میں ادا کیے گئے کلمات میں ’’قبضے‘‘ یا ’’دو ریاستی حل‘‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا، جو دونوں ہی فلسطینیوں کے لیے مشکل اور اہم نکتے ہیں۔


ایرون ڈیوڈ مِلر نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ’’سر ہلاتے ہوئے، کبھی کسی امریکی صدر نے تنازعے کے خاتمے کے لیے امن سمجھوتے کے بارے میں اتنے اعتماد سے اظہار خیال نہیں کیا، جب کہ کامیابی کا بہت ہی کم امکان نظر آتا ہے‘‘۔ مِلر ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک انتظامیہ کے دوران، مذاکرات کار برائے مشرق وسطیٰ رہ چکے ہیں۔

عباس سے ملاقات

اس سے قبل، منگل کو بیت اللحم میں، ٹرمپ کی موجودگی میں بولتے ہوئے، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا کہ فلسطینیوں کے لیے بنیادی مسئلہ اسرائیلی قبضہ، بستیوں کی تعمیر اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی حقوق تسلیم کرنے میں ناکامی ہے۔

عباس نے مزید کہا کہ ’’مسئلہ یہودیت نہیں بلکہ قبضہ ہے‘‘۔