ٹرمپ کے بعد طالبان کی بھی افغان امن مذاکرات بحال ہونے کی تصدیق

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ اگر امن مذاکرات شروع ہوئے تو یہ وہیں سے آگے بڑھیں گے جہاں رُکے تھے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد افغان طالبان نے بھی امن مذاکرات کی بحالی کی تصدیق کر دی ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کی شب غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچے تھے جہاں انہوں نے بگرام ایئر بیس پر فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے رابطے جاری ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اُن کے خیال میں طالبان جنگ بندی چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو میں فریقین کے درمیان نئے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔

طالبان ترجمان کے مطابق، امریکہ کے سینئر حکام نے گزشتہ ہفتے دوحہ میں طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی جس کے بعد جلد امن مذاکرات باضابطہ طور پر بحال ہو سکتے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کے بقول، "ہم مذاکرات کی دوبارہ بحالی کے لیے تیار ہیں اور ہمارا مؤقف اب بھی وہی ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر امن مذاکرات شروع ہوئے تو یہ وہیں سے آگے بڑھیں گے جہاں رُکے تھے۔

یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر میں کابل میں ہونے والے ایک دھماکے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد امن مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

طالبان کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'رائٹرز' سے گفتگو میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا دورۂ افغانستان ثابت کر دے گا کہ وہ مذاکرات کی بحالی میں کتنے سنجیدہ ہیں۔

طالبان رہنما کے بقول، امریکہ کے پاس مذاکرات کی بحالی کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

امریکہ کے تہوار 'تھینکس گونگ' کے موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کی شب اچانک غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچے تھے جہاں انہوں نے بگرام ایئربیس پر امریکی فوجیوں کے ساتھ وقت گزارا تھا۔

افغان صدر اشرف غنی نے بھی بگرام ایئر بیس پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔

فوجیوں سے خطاب کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ "ہم طالبان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اور ہم کہتے رہے ہیں کہ جنگ بندی کی جائے۔ اور وہ جنگ بندی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن اب وہ جنگ بندی پر تیار ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔"

صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا کہ حالیہ مہینوں کے دوران امریکہ کی شدید کارروائیوں کے بعد طالبان معاہدے پر تیار ہوگئے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے دورۂ افغانستان کے دوران اُن کے ہمراہ قائم مقام چیف آف اسٹاف، پریس سیکرٹری اور قومی سلامتی کے مشیر بھی تھے۔

خیال رہے کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد لگ بھگ ایک سال تک طالبان رہنماؤں سے مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ستمبر میں ہی کیمپ ڈیوڈ میں طالبان اور افغان رہنماؤں کی ایک خفیہ ملاقات کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جسے اچانک منسوخ کر دیا گیا تھا۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے ردِ عمل میں امریکہ نے افغانستان میں حملہ کیا تھا جس کے بعد سے اب تک امریکی اور بین الاقوامی افواج افغانستان میں موجود ہیں۔

اٹھارہ برس سے جاری اس لڑائی میں ہزاروں افغان شہری اور 2400 سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔