امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے توقع ظاہر کی ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان تنازع کا حل امن مذاکرات سے کرنے کے امکانات پہلے کے مقابلے میں بڑھ گئے ہیں۔
امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے بدھ کو دورۂ کابل کے دوران نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں امن مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آنے کے امکانات پہلے کی نسبت زیادہ ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جنرل مارک ملی نے کہا کہ امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ طالبان نے رواں ماہ کابل میں واقع امریکن یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کو حقانی نیٹ ورک کے تین رہنماؤں کے تبادلے میں رہا کیا تھا جس کے بعد یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ امن مذاکرات بحال ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
ادھر طالبان عہدے داروں نے ’رائٹرز‘ کو بتایا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان رہنماؤں کی امریکی حکام سے غیر رسمی بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ امن مذاکرات جلد دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات صدر ٹرمپ نے ستمبر میں اس وقت معطل کر دیے تھے جب دونوں فریقین کسی سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے بعد افغان امن مذاکرات دوبارہ بحال ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی نظر میں امریکی جنرل کا بیان اس لیے اہم ہے کیوں کہ صدر ٹرمپ نے بھی کچھ دن قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر کام ہو رہا ہے۔
طاہر خان کے بقول اس تناظر میں امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان دوحہ میں ہونے والی غیر رسمی بات چیت بھی اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان ایک ماہ کے عرصے میں دوسری بار غیر رسمی ملاقاتیں ہوئیں ہیں۔ ان کے بقول اس سے قبل اسلام آباد میں بھی طالبان رہنماؤں کی امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد سے ملاقات ہوئی تھی۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کی باضابطہ طور پر نا امریکہ اور نا ہی نے طالبان نے تصدیق کی ہے۔
ادھر افغان صدر کے ترجمان اور معاون وحید عمر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت سے پہلے جنگ بندی لازمی ہے۔ لیکن تجزیہ کار طاہر حسین کے بقول طالبان اس پر تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ امن مذاکرات شروع کرنے سے قبل پرتشدد واقعات میں کمی ہو۔ یہ اقدام اعتماد کی بحالی میں معاون ثابت ہو گا۔