|
ویب ڈیسک _ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ری پبلکن پارٹی کے نیشنل کنونشن کے دوران پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کو قبول کر لیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے تقریر کے دوران خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں احساسات بیان کیے۔
ری پبلکن کنونشن سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ان کی زندگی ختم ہو سکتی تھی۔
ان کے بقول، حملے کے بعد "ہر طرف خون بہہ رہا تھا، پھر بھی میں بہت محفوظ محسوس کر رہا تھا کیوں کہ میرے ساتھ خدا تھا۔"
انہوں نے کہا کہ "ہمارے معاشرے میں انتشار اور تقسیم کو ٹھیک کیا جانا چاہیے۔ ہم اسے جلدی ٹھیک کر دیں گے۔ امریکی ہونے کی حیثیت سے ہم ایک ہی قسمت اور ایک مشترکہ تقدیر سے جڑے ہوئے ہیں۔"
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق سابق صدر ٹرمپ جارحانہ بیان بازی کے لیے مشہور ہیں لیکن جمعرات کو خطاب کے دوران انہوں نے ایک نرم اور گہرا ذاتی پیغام پیش کیا۔
واضح رہے کہ امریکہ کے سیاسی نظام میں سیاسی جماعتیں صدارتی انتخاب کے لیے امیدوار کو نامزد کرتی ہیں۔
ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کے لیے ٹرمپ کی نامزدگی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب موجودہ صدر جو بائیڈن کو اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض رہنماؤں اور ڈونرز کی جانب سے الیکشن کے مقابلے سے دستبردار ہونے کے مطالبوں کا سامنا ہے۔
سابق صدر باراک اوباما نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بائیڈن شاید دوبارہ منتخب نہ ہوسکیں۔
صدر بائیڈن رواں ہفتے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد ریاست ڈیلاویئر میں اپنے گھر میں قرنطینہ میں ہیں اور فی الحال انہوں نے سیاسی سرگرمیاں معطل کر رکھی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے جعمرات کو اپنے خطاب کے دوران اپنا مقبول سیاسی ایجنڈا بیان کیا اور خاص طور پر امیگریشن کے مسئلے پر بات کی۔
قاتلانہ حملے کے بارے میں انہوں نے لوگوں کو بتایا، "اگر میں نے اس آخری لمحے میں اپنا سر نہ موڑا ہوتا تو قاتل کی گولی بالکل اپنے نشان پر لگتی اور میں آج رات یہاں نہیں ہوتا۔"
ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا "میں سارے امریکہ کے لیے صدر بننے کے لیے (الیکشن) لڑ رہا ہوں، نصف امریکہ کے لیے نہیں۔ کیوں کہ نصف امریکہ کے لیے جیتنا کوئی فتح نہیں ہے۔"
سابق صدر نے کہا کہ امریکی ایک ساتھ ہی کامیاب ہوتے ہیں یا پھر وہ کامیاب نہیں ہوتے۔
ریاست پینسلوینیا میں گزشتہ ہفتے سیاسی ریلی کے دوران ٹرمپ نے خود پر ہونے والے حملے میں ہلاک ریٹائرڈ فائر چیف کوری کمپریٹور کے لیے ایک لمحے کی خاموشی بھی اختیار کی۔
'صدر بنا تو ملک بدری کا بڑا آپریشن ہو گا'
ٹرمپ نے اپنا ایجنڈہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو امریکی تاریخ میں ملک بدری کا سب سے بڑا آپریشن ہوگا۔
انہوں نے بارہا الزام لگایا کہ غیر قانونی طور پر میکسیکو کی سرحد عبور کر کے امریکہ آنے والے لوگ امریکہ پر حملہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے "امریکہ پہلے" کی بنیاد پر خارجہ پالیسی اور تجارت میں نئے محصولات کا ذکر بھی کیا۔
اے پی کے مطابق ٹرمپ نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹس نے 2020 کے انتخابات میں دھوکہ دہی کی تھی جس میں انہیں شکست ہوئی تھی۔ حالاں کہ متعدد وفاقی اور ریاستی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ الیکشن میں کوئی بدنظمی نہیں ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اختلافِ رائے کو جرم نہیں بنانا چاہیے یا سیاسی اختلاف کو برا بنا کے پیش نہیں کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ ٹرمپ نے طویل عرصے سے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمے بنانے کی بات کی ہے۔
SEE ALSO: امریکی انتخابات: صدر بائیڈن کی امید واریاپنے طویل خطاب میں ٹرمپ نے اسقاطِ حمل کے حقوق کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اسقاطِ حمل ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے دو سال قبل امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے اس وفاقی طور پر منظور شدہ حق کو ختم کرنے کے بعد سے ری پبلکن کو پریشان کر رکھا ہے۔
ٹرمپ نے چھ میں سے تین ججوں کو نامزد کیا جنہوں نے رو بمقابلہ ویڈ کو الٹ دیا۔ ٹرمپ اپنی ریلیوں میں اکثر رو کو الٹانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ وہ کہتے آرہے ہیں کہ اس معاملے پر ریاستوں کو قانون سازی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹرمپ نے 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل پر حملے کی بغاوت کا ذکر بھی نہیں کیا۔ ٹرمپ کے حامیوں نے اس الیکشن کے ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی انتخابی کامیابی کی توثیق کے عمل کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
فسادات میں قید لوگوں کو ٹرمپ "یرغمال" کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے خطاب میں بائیڈن کا کم ہی نام لیا اور صرف موجودہ حکومت ذکر کیا۔
ٹرمپ کا خطاب ریاست وسکانسن میں چار روزہ ری پبلکن کنونشن کا اختتامی جلسہ تھا جس میں ہزاروں قدامت پسند کارکنوں اور منتخب عہدیداروں نے شرکت کی۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔