ایران کے معاملے پر امریکی حکومت میں اختلافات کی تردید

صدر ٹرمپ ایک اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن بھی ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران سے متعلق ان کی پالیسی پر امریکی حکومت میں کوئی اختلاف نہیں۔

جمعے کو واشنگٹن ڈی سی میں ایک تقریب سے خطاب میں صدر کا کہنا تھا کہ بعض ذرائع ابلاغ یہ افواہیں اڑا رہے ہیں کہ وہ اپنے ہی بعض لوگوں سے ناراض ہیں۔ صد رکے بقول وہ اپنی ٹیم کی کسی فرد سے ناراض نہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔

صدر نے بطور خاص قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا نام لے کر ان کی تعریف کی اور کہا کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔

صدر کی اس تردید سے قبل بعض امریکی ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ ایران سے متعلق پالیسی پر صدر ٹرمپ اور ان کے کابینہ کے ارکان جان بولٹن اور مائیک پومپیو کے درمیان اختلافات ہیں۔

اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ صدر اپنے دونوں وزرا پر سخت برہم ہیں اور تخلیے میں ان تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ دونوں انہیں ایران کے ساتھ جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔

جان بولٹن اور مائیک پومپیو دونوں ایران کے خلاف سخت موقف اپنانے کے حامی ہیں اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی پیدا کرنے میں ان دونوں کی ایران سے متعلق سخت پالیسی کا بنیادی کردار ہے۔

بعض ناقدین اور ایرانی حکام کا الزام ہے کہ مائیک پومپیو ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کے خواہش مند ہیں۔ جان بولٹن نے گزشتہ سال صدر ٹرمپ کی کابینہ میں قومی سلامتی کے مشیر کا منصب سنبھالا تھا جس کے بعد سے وہ ایران کے خلاف سخت موقف اپنانے کی سرگرمی سے حمایت کرتے آئے ہیں۔

گو کہ صدر ٹرمپ کا خود بھی ایران کے خلاف سخت موقف رہا ہے، لیکن انہوں نے گزشتہ ہفتے ہی صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ بعض اوقات انہیں جان بولٹن کو "ٹھنڈا" کرنا پڑتا ہے۔

بعض امریکی حکام نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے مشیروں کے ایک اجلاس میں صاف کہہ دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔

امریکی حکام کے مطابق صدر عبوری وزیرِ دفاع پیٹرک شناہن کو بھی بتا چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ جنگ ان کی ترجیح نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کو مزید کسی جنگ میں نہیں گھسیٹیں گے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر نے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں امریکہ کی شمولیت پر بھی کڑی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ جنگیں امریکہ کو بہت مہنگی پڑی ہیں۔

لیکن صدر یہ بھی کہتے ہیں کہ بیرونِ ملک امریکہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی رواں ماہ کے آغاز پر اس وقت زور پکڑ گئی تھی جب امریکہ نے اپنا ایک طیارہ بردار جہاز، جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے حامل جنگی طیارے اور میزائل بیٹریاں مشرقِ وسطیٰ روانہ کردی تھیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام خطے میں امریکی مفادات پر ایران کے حملے کے خطرے کے پیشِ نظر کیا ہے۔ تاہم خطے میں امریکہ کی اس فوجی نقل و حرکت پر ایران سخت برہم ہے اور ایرانی قیادت کے سخت بیانات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کسی براہِ راست تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

لیکن بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ کشیدگی میں کمی کے لیے سرگرم ہے اور اس نے ایران کو براہِ راست بات چیت کی پیش کش بھی کی ہے جس کا اب تک مثبت جواب نہیں ملا۔