شام سے امریکی فوج کا انخلا: ایوان نمائندگان میں ارکان کی مذمت

فائل فوٹو

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوان نمائندگان میں اراکین کی مخالفت کے باوجود شام سے امریکی فوج کے انخلا کے اقدام کو 'بہترین فیصلہ' قرار دیا ہے۔

ایوان نمائندگان میں صدر ٹرمپ کی جماعت رپبلکن پارٹی کے 129 اراکین نے ڈیموکریٹس ارکان کی حمایت کی ہے۔

شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق بدھ کو ہونے والی رائے شماری میں ایوان نمائندگان کے 60 ارکان کے مقابلے میں 354 اراکین نے امریکی صدر کے فیصلے کی مذمت کی۔

اس موقع پر مشترکہ قرارداد کے ذریعے ترک صدر رجب طیب ایردوان سے شام میں کردوں کے خلاف فوجی آپریشن فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔

ایوان نمائندگان میں رائے شماری میں 60 کے مقابلے میں 354 اراکین نے فیصلے کی مخالفت کی — فائل فوٹو

ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی اور سینیٹ کے اقلیتی رہنما چارلس شمر نے کہا ہے کہ یہ وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ہونے والی تکلیف دہ ملاقات تھی۔

شمر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے نینسی پیلوسی کو 'تیسرے درجے' کی سیاستدان قرار دیا ہے جبکہ نینسی پیلوسی کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کو پستی کا تجربہ ہے۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ نے اسپیکر نینسی پیلوسی کو جواب دیتے ہوئے ٹوئٹ میں کہا کہ ڈیمو کریٹک رہنما کو خود پستی کا تجربہ ہے اور انہیں فوری طور پر مدد درکار ہے۔

شام سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق تنقید کا سامنا کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ترک صدر ایردوان کو کردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کی اجازت نہیں دی۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں ترک صدر کے اس فیصلے سے حیرت نہیں ہوئی کیونکہ وہ طویل عرصے سے ایسا کرنا چاہتے تھے۔ صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ترک صدر کافی عرصے سے شام کی سرحد پر فوجی دستے تعینات کررہے تھے۔

صحافیوں سے بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اب امریکی فوجی محفوظ ہیں۔ امریکی صدر کے بقول ترکی نے شام پر حملہ کیا ہے اور اب یہ معاملہ ترکی اور شام کے درمیان ہے۔ اس میں امریکہ کا کچھ لینا دینا نہیں۔

کردوں سے متعلق بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ جنگ کیسے لڑنی ہے۔ وہ کوئی فرشتے نہیں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کرد باغیوں کی تنظیم 'پی کے کے' داعش سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ترک صدر کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں انہوں نے اس حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔

صحافیوں کے ساتھ کی جانے والی گفتگو میں صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اس گفتگو کے بعد انہوں نے ترک صدر کو خط لکھا۔ جو کہ انتہائی سخت تھا۔

نو اکتوبر کو ترک صدر کو لکھے گئے خط میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ آپ ہزاروں لوگوں کی ہلاکت کے ذمہ دار نہیں بننا چاہیں گے۔

خط میں دریافت کیا گیا کہ ترک صدر سخت انسان بننا چاہیں گے یا ایک احمق۔

امریکی صدر کی طرف سے یہ بیانات ایسے موقع پر سامنے آرہے ہیں جب نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو شام پر حملے کے بعد ترک صدر ایردوان سے مبینہ طور پر مذاکرات کے لیے جا رہے ہیں۔