ٹرمپ کا امریکی کمپنیوں کو چین میں کاروبار بند کرنے کا حکم

اوساکا جاپان میں جی 20 سربراہ کانفرنس کے موقع پر صدر ٹرمپ اور چین کے صدر ژی جن پنگ کی ملاقات۔29 جون 2019

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز کہا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے 75 ارب ڈالر مالیت کے امریکی سامان پر جوابی محصولات عائد کیے جانے کے بعد انہوں نے امریکی کمپنیوں کو چین چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ چین کی جانب سے محصولات پر اس کے تازہ ترین اقدام کا جواب دیں گے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر عہدے دار نے خبررساں ادرے رائٹرز کو بتایا کہ صدر نے اپنی تجارتی ٹیم کے ساتھ ملاقات کی ہے۔

صدرٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ صاف بات یہ ہے کہ ہمیں چین کی ضرورت نہیں ہے، ہم ان کے بغیر کہیں زیادہ بہتر ہو سکتے ہیں۔ چین برس ہا برس اور عشروں سے امریکہ سے بڑی مقدار میں دولت کما اور چرا رہا ہے۔ یہ سلسلہ بند ہو گا اور لازماً بند ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی عظیم امریکی کمپنیوں کو حکم دیتا ہوں کہ وہ فوری طور پر چین کا متبادل دیکھنا شروع کر دیں جس میں اپنی کمپنیوں کو وطن واپس لانا اور اپنی مصنوعات امریکہ میں تیار کرنا شامل ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ امریکی کمپنیوں کو چین میں اپنی سرگرمیاں بند کرنے اور اس ملک سے مصنوعات منگوانے سے روکنے کے لیے کونسا قانونی اختیار استعمال کریں گے۔

امریکی صدر نے کہا ہے کہ وہ سامان پہنچانے والی کمپنیوں کو بھی، جن میں فیڈکس، ایمزان، یوپی ایس اور امریکہ کی پوسٹل سروس شامل ہے، یہ حکم دے رہے ہیں کہ وہ متبادل تلاش کریں اور چین سے تمام ڈلیوریوں کو انکار کر دیں۔

چین کی جانب سے یہ تازہ ترین ردعمل ٹرمپ کے ان منصوبوں کا حصہ ہے جس کے تحت یکم ستمبر اور 15 دسمبر سے چین کی بنی ہوئی عام ضرورت کی 300 ارب مالیت کی مصنوعات پر 10 فی صد اضافی محصول لگانا ہے۔ ان مصنوعات میں موبائل فونز، کھلونے، لیپ ٹاپ کمپوٹر اور ملبوسات شامل ہیں۔