امریکی صدارتی انتخابات میں مزید دو دن باقی ہیں۔ ایسے میں رپبلکن اور ڈیموکریٹک جماعتوں کے دونوں صدارتی امیدوار امریکہ کی ان ریاستوں پر توجہ دے رہے ہیں جہاں ان کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے۔
جمعے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ریاستوں مشی گن، منی سوٹا اور وسکانسن میں انتخابی مہم جاری رکھی۔ جب کہ سابق نائب صدر جو بائیڈن نے منی سوٹا، وسکانسن اور آئیوا میں اپنی انتخابی مہم چلائی۔
ریاست مشی گن کے 16 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ جب کہ منی سوٹا اور وسکانسن کے 10، 10 اور آئیوا کے 6 الیکٹورل ووٹ ہیں۔
سابق نائب صدر جو بائیڈن نے ریاست آئیوا میں اپنی ڈرائیو اِن ریلی میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ریاست میں کرونا وائرس کے ریکارڈ کیسز سامنے آ رہے ہیں اور صدر ٹرمپ نے ایسی حالت میں وبا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس وہ وائرس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
صدر ٹرمپ نے ریاست مشی گن میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن نے کرونا وائرس کی وجہ سے بد ترین سرد موسم کی پیش گوئی کی تھی۔
جو بائیڈن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ جیسے اس ملک کو جاڑے کا سخت موسم چاہیے اور ایک ایسا رہنما جو اس کے بارے میں بات کرتا ہو۔
انتخابی مہم کے دوران صدر نے دعویٰ کیا کہ چند ہفتوں میں امریکیوں کے لیے ایک محفوظ ویکسین دستیاب ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ویکسین مفت دستیاب ہو گی۔ کرونا وائرس کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ آپ کی غلطی نہیں ہے۔ یہ کسی کی بھی غلطی نہیں ہے۔ یہ چین کی غلطی ہے۔
جمعرات کو دونوں صدارتی امیدواروں نے اپنی توجہ جنوب مشرقی ریاست فلوریڈا کی جانب مرکوز رکھی۔ جہاں 2016 کے انتخابات میں صدر ٹرمپ فاتح رہے تھے۔
فلوریڈا میں انتخابی ریلی سے خطاب میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ اگر فلوریڈا میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو مقابلہ ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے صدر ٹرمپ پر وبا کے دوران بڑی ریلیاں منعقد کرنے پر تنقید کی۔ جن میں ان کے بقول لوگوں کی اکثریت نے فیس ماسک نہیں پہن ہوتے۔
جو بائیڈن نے ان ریلیوں کو وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بننے کا الزام لگایا۔
انتخابی مہم کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ صرف کرونا وائرس ہی نہیں پھیلا رہے۔ بلکہ وہ عوام میں تقسیم اور تنازع بھی پھیلا رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے فلوریڈا میں ایک مجمعے سے خطاب میں تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ریاست میں ری پبلکن ووٹرز کے بڑے ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی سرخ لہر ہو گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ لوگ دیکھیں گے کہ وہ بڑے فرق سے انتخابات میں فتح حاصل کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمعرات کو شمالی کیرولینا میں صدر کی ریلی خراب موسم کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی تھی۔
خیال رہے کہ 1996 سے لے کر اب تک ریاست فلوریڈا کا فاتح ہی، صدر بننے میں کامیاب ہوا ہے۔
امریکی صدارتی انتخاب میں 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ جب کہ ریاست فلوریڈا کے الیکٹورل ووٹ 29 ہیں۔
امریکی انتخابات اور عوامی جائزے
عوامی جائزوں کی ایک بڑی ویب سائٹ ‘ریئل کلیئر پالیٹکس’ کے مطابق دونوں امیدواروں کے مابین فلوریڈا اور شمالی کیرولینا میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ جب کہ مشی گن، پنسلوینیا اور وسکانسن ریاستوں میں جو بائیڈن کو صدر ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔
قومی سطح کے عوامی جائزوں میں جو بائیڈن کو صدر ٹرمپ پر 7 سے 8 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ لیکن انتہائی اہم سمجھے جانے والی ریاستوں میں یہ برتری لگ بھگ نصف ہے۔
قبل از وقت ووٹنگ
آئندہ ہفتے منگل کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے عوام بڑی تعداد میں 'ارلی ووٹنگ' کی سہولت کے تحت الیکشن کے دن سے پہلے ہی ووٹ ڈال رہے ہیں اور جمعرات تک آٹھ کروڑ سے زائد افراد اپنا ووٹ دے چکے ہیں۔ جو کہ 2016 کے انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد 13 کروڑ 88 لاکھ کے نصف سے کہیں زیادہ ہے۔
جو ووٹرز اب تک ووٹ دے چکے ہیں۔ ان میں سے دو تہائی افراد نے ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں لوگ قائم کردہ پولنگ اسٹیشنوں میں جا کر ووٹ دے رہے ہیں۔
جو بائیڈن نے بدھ کو ریاست ڈیلاویئر میں اپنا ووٹ دیا۔ جب کہ صدر ٹرمپ نے ہفتے کو اپنا ووٹ ریاست فلوریڈا میں ڈالا تھا۔