سہ فریقی مذاکرات: خطے میں قیام امن کے لیے کتنے اہم؟

سہ فریقی مذاکرات کا یہ تیسرا دور ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان، چین اور افغانستان کے مابین سہ فریقی مذاکرات کا تیسرا دور آج اسلام آباد میں شروع ہورہا ہے۔ جس میں سیاسی تعلقات، افغان امن عمل، سکیورٹی تعاون اور انسداد دہشت گردی سیمت دیگر امور پر تبادلہ خیال ہو گا۔

یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات آخری مراحل میں ہیں۔ جبکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

ان مذاکرات کا میزبان پاکستان ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی زیر صدارت مذاکرات میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی اور افغاستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اپنے ملک کے وفود کی قیادت کریں گے۔

چین کے وزیر خارجہ نے گزشتہ روز بھارت کا دورہ منسوخ کردیا تھا اور آج سہ فریقی مذاکرات کے لیے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز افغانستان کے وزیر خارجہ نے پاکستان میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔ اور ان کے نائب نے مذاکرات میں شرکت کرنا تھی۔ لیکن بعدازاں شیڈول میں تبدیلی کی گئی اور اب افغانستان کے وزیر خارجہ ہی مذاکرت میں شریک ہوں گے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق مذاکرات کے ایجنڈے میں سیاسی تعلقات، امن عمل، سکیورٹی تعاون و انسداد دہشت گردی، ترقیاتی تعاون اور رابطوں کو استوار کرنا شامل ہے۔

چین، افغانستان، پاکستان وزرائے خارجہ مذاکرات کا سلسلہ 2017 میں شروع ہوا تھا۔ جس کا مقصد معاشی ترقی اور امن وسلامتی پر تینوں ممالک میں تعاون کو فروغ دینا تھا۔

مذاکرات کا پہلا اجلاس 2017 میں بیجنگ میں جبکہ دوسرا اجلاس دسمبر 2018 میں کابل میں ہوا تھا۔

افغانستان میں امن کے قیام اور پاکستان اور افغانستان نے عدم اعتماد کی فضا ختم کرنے کے لیے جون میں پاکستان کے پرفضا مقام مری بھوربن میں پہلی افغان امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں پاک افغان تعلقات پر پروپیگنڈا یا منفی تاثر پھیلانے کے حوالے سے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق چین پاکستان کا قریبی اتحادی ہے جس نے گزشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان کے ساتھ بھی اپنے معاشی اور سیاسی تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ چین خطے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کا بھی خواہش مند ہے۔

چینی حکام کا کہنا ہے کہ علاقائی استحکام کے نتیجے میں چین مخالف شدت پسندی کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ جو چین کے علاقے مغربی سنکیانگ میں چین کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

سنکیانگ کی سرحد افغانستان اور پاکستان سے بھی ملتی ہے۔