حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان معاہدے کی کوششوں میں تیزی، 50 رُکنی جرگہ کابل پہنچ گیا

جرگے میں پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما شامل ہیں۔

حکومتِ پاکستان اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن معاہدے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ فریقین کے درمیان معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے پاکستان سے 50 قبائلی زعما پر مشتمل جرگہ بھی بدھ کو کابل پہنچ گیا ہے۔

افغانستان جانے والے جرگے میں قبائلی اضلاع اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما شامل ہیں۔ ان میں خیبرپختونخوا کے سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ سمیت پاکستان پیپلزپارٹی کے باجوڑ سے سابق رُکن اسمبلی اخونزادہ چٹان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سابق سینیٹر مولانا صالح شاہ بھی شامل ہیں۔

جرگے کے ہمراہ ٹی ٹی پی کے بانی رہنما بیت اللہ محسود کے سسر اکرام دین محسود بھی کابل گئے ہیں۔

اسلام آباد سے کابل روانگی کے وقت میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انجینئر شوکت اللہ خان کا کہنا تھا کہ بات چیت میں کالعدم تنظیم اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ جرگے کے کابل جانے سے انہیں امید ہے کہ فریقین معاہدے پر متفق ہو جائیں گے اور بہت جلد اس پر دستخط ہوں گے۔

خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان گزشتہ کئی روز سے جاری مذاکرات میں پیش رفت کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ فریقین نے رواں ماہ تیسری بار 30 مئی تک جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم مذاکرات میں پیش رفت کے بعد فریقین غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی پر متفق ہو گئے تھے۔

افغان طالبان ثالث

تحریکِ طالبان پاکستان اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات افغان طالبان کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔

افغانستان میں برسر اقتدار طالبان عہدیدار بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کابل میں مئی کے وسط سے حکومتَ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں معاونت کر رہے ہیں۔

افغان طالبان اور تحریکِ طالبان پاکستان نے چند روز قبل تصدیق کی تھی کہ پاکستانی فوج کے کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید مذاکرات کے سلسلے میں کابل آئے تھے اور اُن کی ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ حکومتِ پاکستان یا فوج نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔

مذاکرات کا فیصلہ کن موڑ؟

کابل میں پاکستانی حکام نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں کہا ہے کہ مذاکرات انتہائی اہم اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کالعدم تنظیم کے ذرائع نے بھی مذاکرات میں پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔

جرگے میں پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی نمائندگی ہے، تاہم ٹی ٹی پی کے ہاتھوں سب سے زیادہ جانی نقصان اُٹھانے والی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور قومی وطن پارٹی کے نمائندے اس جرگے میں شامل نہیں ہیں۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما حاجی بسم اللہ خان آفریدی کے بقول 50 رُکنی جرگے کی تشکیل کا فیصلہ چند روز قبل اعلی فوجی حکام کے ساتھ باڑہ میں ہونے والے ایک اجلاس کے بعد ہوا تھا۔


جرگے میں شامل رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فوری طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ امن معاہدے پر کب تک دستخط ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس دورے کا مقصد فریقین کے درمیان بداعتمادی کو دُور کر نا ہے۔

'جرگے کا کابل جانا نہایت اہم ہے'

خیبرپختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ پشتون معاشروں میں جرگے کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ لہذٰا کابل جانے والے جرگے سے اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ افہام و تفہیم کے ساتھ فریقین کو قیامِ امن کے لیے قائل کر لے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت اور تحریکِ طالبان کے ساتھ جو بھی معاہدہ ہو گا اس کا ضامن نہ صرف یہ جرگہ ہو گا بلکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت بھی اس کی ضامن ہو گی۔

سید اختر علی شاہ کے مطابق افغان طالبان نے فروری 2020 میں امریکہ کے ساتھ طے پانے والے دوحہ امن معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اُن کے بقول اسی احساسِ ذمے داری کے تحت افغان طالبان حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مصالحت کے لیے کوشاں ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے بعد ٹی ٹی پی کی قیادت نے اب افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور وہ وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔

حالیہ عرصے میں پاکستان، افغانستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا تھا اور پاکستانی فوج کو جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ افغان طالبان نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں میں بمباری کی تھی جس سے عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔جب کہ پاکستانی فوج نے ان الزامات کی تردید یا تصدیق نہیں کی تھی۔

ٹی ٹی پی کے بنیادی مطالبات کیا ہیں؟

تحریکِ طالبان کے اہم مطالبات یہ ہیں کہ قبائلی اضلاع کی آزاد حیثیت بحال کی جائے جس کی ضمانت اُن کے بقول بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے دی تھی۔ ٹی ٹی پی قبائلی اضلاع سے فوج کی واپسی بھی چاہتی ہے جب کہ گزشتہ برسوں کے دوران فوجی آپریشن کے دوران جانی اور مالی نقصان کا ازالہ بھی ٹی ٹی پی کے مطالبات میں شامل ہے۔

ٹی ٹی پی جنگ کے دوران اپنے قیدیوں کی رہائی اور رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات کی واپسی بھی چاہتی ہے جب کہ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ بھی اس کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔

چند روز قبل ٹی ٹی پی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی اور مقدمات واپس لینے سمیت اُن کے 60 فی صد مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں جب کہ دیگر معاملات پر بات چیت جاری ہے۔

دوسری جانب حالیہ عرصےمیں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے حکومت اور فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ آئینِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے شدت پسند تنظیم کے ساتھ مذاکرات کریں گے جس میں ملکی مفاد کو ترجیح دی جائے گی۔

ٹی ٹی پی نے سن 2007 میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی لال مسجد میں فوجی آپریشن کے بعد پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔ تنظیم نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔

گزشتہ 15 برسوں کے دوران کئی مواقع پر تنظیم اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مذاکرات کے دور ہوتے رہے ہیں، تاہم وہ فیصلہ کن ثابت نہیں ہو سکے تھے۔

تنظیم کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ صرف افواجِ پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بناتی ہے اور عام شہری اس کا ہدف نہیں ہیں۔ تاہم پاکستانی فوج اور حکومت کا یہ الزام رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کے دوران کئی عام شہری بھی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔