پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے قبائلی اضلاع کے انتخابات میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشست پر ایک خاتون امیدوار کو نامزد کیا ہے۔ ثریا بی بی نامی خاتون کا تعلق مسیحی برادری سے ہے اور وہ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھتی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں کے لیے 20 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں 100 سے زائد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔
ان انتخابات میں خواتین کی چار مخصوص اور ایک اقلیتی نشست بھی مختص کی گئی ہے، جس کے لیے سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کی ترجیحی فہرستیں الیکشن کمیشن کو جمع کروا دی ہیں۔
خیبر ایجنسی کے علاقے لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والی ثریا بی بی نے چھ سال قبل ایک سلائی کڑھائی کے اسکول کی بنیاد رکھی تھی۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوے ثريا بی بی نے بتايا کہ "ہمارے علاقے کی اکثرخواتین غريب ہيں ان کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے خواتين دور دراز سے پانی بھر کر لاتی ہيں۔"
ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں صرف ایک اسپتال ہے جس میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مریضوں کو اکثر پشاور منتقل کیا جاتا ہے جس کے باعث راستے میں ہی اموات ہو جاتی ہیں۔
ثریا بی بی کے بقول انہی وجوہات کی بناء پر انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے علاقے میں خواتین کا کوئی کالج نہیں ہے انہیں خود بھی یہ افسوس ہے کہ وہ محض میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکیں۔ تاہم وہ اس بات کو یقیی بنائیں گی کہ علاقے کی دیگر خواتین تعلیم سے محروم نہ رہیں۔
ثریا بی بی براہ راست الیکشن مین حصہ نہیں لے رہیں تاہم وہ اپنے گھر میں پارٹی کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ان کے بقول ان کا گھر کشادہ ہے اور یہاں تقاریب منعقد کرنا قدرے آسان ہے۔
ثریا کہتی ہیں کہ جب انہوں نے سلائی کڑھائی سینٹر کا آغاز کیا تو مقامی لوگ اپنی خواتین کو یہاں نہیں بھیجتے تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا اعتماد بحال ہوا۔
سامعہ گریفان، ثريا بی بی کی اکلوتی بيٹی ہيں۔ انھوں نے حال ہی ميں پشاور سے گريجويشن کا امتحان ديا ہے۔ وہ اپنی والدہ کی سياسی مہم ميں ان کے شانہ بشانہ ہيں۔
سامعہ پرامید ہیں کہ ان کی والدہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو جائیں گی ان کے بقول "لنڈی کوتل میں خواتین کے کالج کی اشد ضرورت ہے لڑکیوں کو مزید پڑھنے کے لیے میری طرح پشاور جانا پڑتا ہے۔"
ثریا بی بی کہتی ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ان کی شاگرد سلائی کڑھائی کا کام سیکھ کر باعزت روزگار کما رہی ہیں۔ علاقے کی خواتین کے لیے بڑے پیمانے پر کچھ کرنا چاہتی ہوں۔
صحافی لحاظ علی جو گزشتہ دو دہائیوں سے علاقے کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی علاقے میں پوزیشن اتنی مضبوط نہیں ہے۔ تاہم وہ ثریا بی بی کو ٹکٹ دے کر علاقے میں اپنا سافٹ امیج اجاگر کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان پر قدامت پسندی کا لیبل کسی حد تک ختم ہو سکے۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی اعجاز شنواری اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے ان کے بقول قبائلی اضلاع میں ان کی پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی خاتون کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس سے قبل بلوچستان میں بھی اقلیتی برادری کو نمائندگی دی گئی ہے۔
مخصوص نشستوں پر کامیابی کا دارومدار براہ راست انتخابات میں کسی بھی پارٹی کی جانب سے جیتی گئی نشستوں پر ہو تا ہے۔ اگر جمعیت علمائے اسلام مطلوبہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو مخصوص اور اقلیتی نشستوں پر ان کے امیدواروں کی کامیابی کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔