بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں کئی روز سے دو گروہوں کے درمیان جاری تنازع میں شدت آ رہی ہے۔ تصادم کے دوران مزید دو ہلاکتوں کے بعد مقامی آبادی کے افراد نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔
مقامی پولیس کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وڈھ میں گزشتہ 13 روز سے مینگل قبائل کے دو گروپ مورچہ زن ہیں اور وقفے وقفے سے ایک دوسرے پر فائرنگ اور گولہ باری کر رہے ہیں جس کے باعث اب تک دو افراد ہلاک جب کہ نو زخمی ہو گئے ہیں۔
مقامی صحافی جبار بلوچ کا کہنا ہے کہ علاقے میں گزشتہ دو ماہ سے معمولات زندگی متاثر رہے ہیں مگر گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کشیدگی کے باعث مقامی بازار بند ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وڈھ کے مختلف علاقوں میں غذائی قلت پیدا ہو گئی ہے اور لوگوں کا گھروں سے نکلنا محال ہو گیا ہے۔
جبار بلوچ کے بقول وڈھ میں جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اُن کے بقول پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے صرف قومی شاہراہ پر روڈ بند کرنے اور کھلوانے کے حد تک میدان میں نظر آتے ہیں تاہم جن علاقوں میں لوگ مورچہ زن ہیں وہاں کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔
انہوں نے بتایا کہ وڈھ میں گزشتہ دو ماہ سے سرکاری دفاتر، اسکول، کالجز اور دیگر تعلیمی ادارے بند ہیں جس کی وجہ سے مقامی شہری اور طلبہ مشکلات کا شکار ہیں۔
ان کے بقول وڈھ کے مختلف علاقوں کلی سردار حبیب، کلی حاجی پیر محمد، سردار شہر، کلی عرض محمد، کلی عبدالحکیم سرمستانی، ہندو محلہ، بلوچ پاڑہ، سمیت دیگر علاقوں سے درجنوں خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔
وڈھ سے خضدار نقل مکانی کرنے والے ایک ہندو تاجر چندر کمار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علاقے میں جاری کشیدگی کے باعث ان کے اہلِ خانہ خوف کا شکار تھے۔
اُن کے بقول علاقے میں ہر وقت فائرنگ اور گولہ باری کی آوازیں آتی تھیں ایسے لگتا تھا کہ اب گولہ گھر میں گرنے والا ہے۔
چندر کمار نے بتایا کہ وڈھ بازار کی بندش کے باعث مقامی تاجروں کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ مسئلے کا فوری حل نکالے تاکہ لوگوں کے معمولاتِ زندگی بحال ہو سکیں۔
وڈھ کے لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں ایکٹر پر لوگوں کی زرعی زمینیں ہیں جہاں پر دونوں گروپ مورچہ زن ہیں۔ اس صورتِ حال سے مقامی زمینداروں کو بھی لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
مقامی زمیندار حاجی امام بخش مینگل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے اپنی زمینوں کی طرف نہیں جا سکے۔
اُن کے بقول علاقے میں فائرنگ سے بجلی لائنوں اور ٹرانسفارمرز کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے بجلی بند ہے اور فصلوں کو پانی نہیں مل رہا ہے۔
کئی زمینداروں کی فصلیں پانی اور دیکھ بھال نہ ہونے کہ وجہ سے خراب ہو رہی ہیں اور لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
علاقے میں کشیدہ صورتِ حال کے باعث بلوچستان اور سندھ کو ملانے والی قومی شاہراہ کو روزانہ متعدد بار بند کرانا پڑ رہا ہے تاکہ وہاں سے گزرنے والے مسافروں اور مال بردار گاڑیوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی گزشتہ ماہ 19 جولائی کو علاقے میں دونوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن تھے۔ اس دوران فائرنگ سے علاقے میں مقامی کالج کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا اور ایک شخص زخمی بھی ہوا تھا۔
سابق وزیرِ اعلٰی نواب اسلم رئیسانی نے دونوں قبائل کے درمیان مصالحت کرانے کی بھی کوشش کی اور فریقین نے لڑائی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن 15 اگست کے بعد سے علاقے میں صورتِ حال پھر کشیدہ ہے۔
تنازع کی وجہ کیا ہے؟
وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے جو کوئٹہ شہر سے تقریباً 368 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
وڈھ میں مینگل قبیلے کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائد سردار اختر جان مینگل کی آبائی رہائش گاہ ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ وڈھ میں زمین کا تنازع ہے۔ کاغذات میں یہ زمین اختر مینگل کے والد عطاء اللہ مینگل اور ان کے خاندان کے نام پر ہے۔ تاہم میر شفیق مینگل اور ان کے قبائل نے وہاں مبینہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔
اُن کے بقول میر شفیق مینگل کے والد میر نصیر مینگل سردار عطاء اللہ مینگل کے اتحادی تھے۔
نصیر مینگل 1988 سے انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق میر شفیق مینگل کے پاس مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد ہے اور یہ ریاستی اداروں کو بھی چیلنج کرتے رہے ہیں۔
سن 2014 میں خضدار میں لیویز چیک پوسٹ پر حملے میں آٹھ اہل کاروں کی ہلاکت کا مقدمہ بھی شفیق مینگل کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
واقعے کے کچھ عرصے بعد شفیق مینگل کو اُن کے آبائی علاقے تک محدود رکھا گیا۔
اسی برس توتک سے اجتماعی قبریں ملنے کے معاملے پر بھی اُنگلیاں شفیق مینگل کی طرف اُٹھائی گئی تھیں۔
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ شفیق مینگل 2018 میں اپنے حلقے سے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں اور اُنہیں اختر مینگل مخالف ووٹ ملتا ہے۔
اُن کے بقول وڈھ میں تصادم کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الیکشن کی آمد آمد ہے اور اس تنازع کو ہوا دی جا رہی ہے۔
حکومت کیا کر رہی ہے؟
اس سلسلے میں انتظامیہ سے ٹیلی فون پر متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
نگراں وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے گزشتہ دنوں کوئٹہ میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ وڈھ میں فریقین واپس امن کی پوزیشن میں چلے جائیں تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ قبائلی مسئلہ ہے اور ہم چیف آف ساراون نواب اسلم رئیسانی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو قبائلی طور پر حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔