اسلام آباد اور کابل کے درمیان باہمی تجارت ڈالرز میں کرنے کی شرط، تاجر پریشان

فائل فوٹو

حکومتِ پاکستان کی جانب سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان باہمی تجارت کو ڈالرز میں کرنے کی پابندی پر مقامی کاروباری شخصیات نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک) نے گزشتہ ماہ افغانستان کو برآمد کی جانے والی پاکستانی مصنوعات اور اشیا کی تجارت کو افغانی کرنسی میں کرنے کے بجائے ڈالرز میں کرنے کی شرط کی عائد کی تھی۔ تاہم افغانستان کو برآمد کی جانے والی روزہ مرہ استعمال اشیا پر یہ پابندی عائد نہیں ہوتی۔

مبصرین کے خیال میں افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت کو مقامی کرنسی میں کرنے کے بجائے ڈالر کی شرط عائد کرنے کا مقصد پاکستان سے ڈالر کے انخلا کو روکنا اور روپے کی قدر کو مستحکم رکھنا ہے۔

اس سے قبل افغانستان فروخت کی جانے اشیا کی ادائیگی کے لیے افغان تاجر مقامی کرنسی کے عوض ڈالر پاکستان سے خرید رہے تھے۔

پاک افغان تاجر برداری کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے فیصلے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت متاثر ہوئی ہے اور انہوں نے نئی شرائط پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔

SEE ALSO: افغانستان سے پاکستان پھل درآمد کرنے پر سیلز ٹیکس ختم، کیا افغان معیشت کو سہارا ملے گا؟

پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت افغانستان میں نہ تو بینک فعال ہیں اور افغانستان کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان تاجر صرف 10 ہزار ڈالر اپنے ساتھ لا سکتے ہیں لیکن افغانستان جانے والی تجارتی کھیپ کی قیمت کئی گنا زیادہ ہے۔ اگر تجارتی اشیا کی ادائیگی ڈالروں میں کرنے کی شرط جاری رہی تو لامحالہ افغان تاجر پاکستان سے ڈالر خریدیں گے جس کی وجہ سے پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر منفی اثر پڑے گا۔

زبیر موتی والا نے مطالبہ کیا کہ جب تک افغانستان میں بینک پوری طرح فعال نہیں ہوتے اس وقت تک افغانستان کے ساتھ تجارت مال کے بدلے مال اور پاکستانی روپے میں کرنے کی اجازت دی جائے۔

'ای فارم کے اجرا سے پہلے افغانستان سے ڈالرز لانا ضروری ہے'

دوسری جانب 'پاکستان افغانستان چیمبر آف کامرس' کے کابل دفتر کے سیکرٹری جنرل نقیب اللہ صافی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں ڈالر میسر نہ ہونے کی وجہ سے پاک افغان تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول افغانستان میں زیادہ تر روزمرہ استعمال کی اشیا کے علاوہ سیمنٹ، تعمیراتی سامان، الیکٹرانک مصنوعات اور دیگر سامان پاکستان سے درآمد کیا جاتا ہے۔

صافی نے پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جب تک افغانستان میں بینک پوری طرح فعال نہیں ہوتے دیگر مقامی کرنسی یا مال کے بدلے مال کی تجارت کا طریقہ وضح کرنے کے لیے کابل اور اسلام آباد کوئی طریقہ تلاش کریں تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت متاثر نہ ہو۔

پاکستان کسٹم کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہا کہ قبل ازیں افغانستان کے لیے برآمدات کے لیے الیکٹرانک امپورٹ فارم کے اجرا کے ساتھ اسٹیٹ بینک میں ڈالر جمع کرائے جاتے ہیں اور بعض اوقات ڈالر اوپن مارکیٹ سے خرید کر اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے جاتے تھے لیکن اب اسٹیٹ بینک نے یہ سہولت ختم کر دی ہے۔ ان کے بقول اب ای فارم کے اجرا سے پہلے افغانستان سے ڈالرز لانا ضروری ہے۔

SEE ALSO: معیشت کے سوا طالبان کی حکومت میں سب اچھا ہے، ملا عبدالسلام ضعیف

عہدیدار نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط کے مطابق کوئی بھی افغان تاجر پاکستان سے درآمد کی جانے والے اشیا کی ادائیگی کے لیے ڈالر یا قابلِ تبدیل کرنسی افغانستان سے کیش کی صورت میں لائے گا اور کسی بھی سرحدی گزر گاہ سے گزرنے کے وقت کسٹم حکام کے ساتھ اس بات کا اعلان کرے گا وہ یہ اپنے ساتھ ڈالر لے کر آیا ہے جس کے بعد اسے فارم ای جاری کیا جائے گا۔

بتایا جاتا ہے کہ افغانستان کی معاشی صورتِ حال کی وجہ سے وہاں سے ڈالر ملک سے باہر لے جانا مشکل ہوگیا ہے کیوں کہ افغانستان کے طالبان حکام نے ملک سے باہر زیادہ مقدار میں ڈالر لے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن سے منسلک ملک بوستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے واپس آنے کے بعد ڈالر کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے درآمدی اشیا کی ادائیگی پاکستان کی اوپن مارکیٹ سے خریدے گئے ڈالروں کے ذریعے ہورہی تھی۔

ملک بوستان کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغانستان کے عوام کی مشکلات اپنی جگہ ہیں لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے لیے بینکوں کا فعال ہونا ضروری ہے تاکہ ڈالر پاکستان سے غیر قانونی طور باہر نا جا سکیں۔

دوسری جانب پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے جوائنٹ سیکرٹری ضیاء الحق سرحدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسی کے خلاف دو طرفہ تجارت کرنے والے تاجروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے علامتی احتجاج بھی کیا ہے۔

ضیا الحق سرحدی نے کہا کہ طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد کسی بھی ملک نے افغانستان کے ساتھ تجارت اور کاروباری لین دین اب تک شروع نہیں کیا جس کے نتیجے میں افغانستان میں ڈالرز نہیں ہیں اور پاکستان کے اسٹیٹ بینک کی نئی پالیسی پر عمل درآمد ناممکن ہے۔