تجارتی سامان پر ٹیکس عائد؛ پاکستان چین سرحد پر چھ دن سے تاجروں کا دھرنا جاری

سرحد پر تاجروں کا احتجاج گزشتہ چھ روز سے جاری ہے۔

  • کسٹم حکام نے تجارت کے لیے اپریل میں بارڈر کھولنے کے بعد نئے ٹیکس قوانین کے بارے میں آگاہ کیا: تاجر
  • گلگت بلتستان متنازع علاقہ ہے دوسرے علاقوں کے قوانین یہاں لاگو نہیں کیے جا سکتے: مظاہرین
  • سوست ڈرائی پورٹ پر بہت سارا تجارتی مال رُکا ہوا ہے: گلگت بلتستان وومن چیمبر آف کامرس
  • پاکستان اور چین کے درمیان خنجراب پاس کے ذریعے برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں: حکام
  • وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان کے معاون خصوصی کے مطابق اس سرحد پر 98 فی صد تجارت درآمدی اشیا کی ہوتی ہے۔
  • ایف بی آر کی واضح ہدایات ہیں کہ دیگر سرحدوں کی طرح خنجراب بارڈر پر بھی نئے ٹیکس قوانین لاگو ہونے چاہیئں۔
  • دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تجارت اپریل سے معطل ہے: مبصرین

اسلام آباد—پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے تاجروں نے پاکستان اور چین کی سرحد پر تجارتی سامان پر ٹیکس کے نفاذ کے پیش نظر گزشتہ چھ دن سے دھرنا دیا ہوا ہے۔

سوست ڈرائی پورٹ کمیٹی کے مطابق جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے اس وقت دھرنا جاری رہے گا۔

انہوں نے آنے والے دنوں میں احتجاج کا دائرہ شاہراہ قراقرم اور سی پیک روٹ تک بڑھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سوست ڈرائی پورٹ کے رکن اور سابق رکن گلگت بلتستان اسمبلی جاوید حسین کا کہنا تھا کہ اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے اور بڑے تاجروں کے علاوہ گلگت بلتستان چیمبر آف کامرس، امپورٹ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن گلگت بلتستان، بیگیج ٹریڈ ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ دیگر تنظیموں کے عہدیداروں اور ارکان نے کسٹم حکام کی پالیسی کے خلاف دھرنا دیا ہوا ہے۔

جاوید حسین نے ٹیکس نفاذ کے حوالے سے بتایا کہ گلگت بلتستان کے چھوٹے بڑے تاجروں کے 200 کنٹینرز جنوری سے سوست ڈرائی پورٹ پر روکے گئے ہیں۔ اپریل میں تجارت کے لیے بارڈر کھولنے کے بعد کسٹم حکام نے نئے ٹیکس قوانین کے بارے میں آگاہ کیا جس کے بعد تاجر برادری نے اس مسئلے کو گلگت بلتستان اسمبلی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

ان کے بقول اسمبلی نے ایک قرارداد کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان میں چین سے درآمدی سامان کو کسی بھی قسم کے سیلز، انکم اور ودہولڈنگ ٹیکس سے مبرا قرار دیا۔ اس کے باوجود بھی کسٹم حکام نے سامان کی کلیئرنس نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کرے والی تاجر برادری نے اس مسئلے کو گلگت بلتستان کے چیف کورٹ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ دس دن قبل 20 جولائی کو گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے ایک حکم نامے کے ذریعے سوست ڈرائی پورٹ پر گلگت بلتستان کے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور دیگر اضافی ٹیکسز سے نئی تاریخ تک مستثنیٰ قرار دیا۔

سرحدی گزر گاہوں کی طرح ٹیکس کا نفاذ

جاوید حسین نے کہا کہ سرحد پر موجود کسٹم اہلکار کہہ رہے ہیں کہ وہ سوست ڈرائی پورٹ پر پاکستان کے دیگر بارڈر کی طرح ٹیکس کا نفاذ لاگو کر رہے ہیں۔

یہاں کے تاجر برادری کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کی زمینی اور آئینی حیثیت کا تناظر پاکستان کے دیگر شہروں اور صوبوں سے الگ ہے اور ایک متنازع علاقہ ہونے کی وجہ سے دوسرے علاقوں کے قوانین یہاں لاگو نہیں کیے جا سکتے۔

سوست ڈرائی پورٹ کے رکن اور سابق رکن گلگت بلتستان اسمبلی جاوید حسین کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اسمبلی اور چیف کورٹ کے آرڈرز ہونے کے باوجود کسٹم انتظامیہ ان کے مطالبات ماننے سے انکار کر رہی ہے جس کے بعد پُر امن دھرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

تاجروں کے احتجاجی دھرنا بغیر کسی تعطل کے ہنزہ کی تحصیل گوجال کے علاے سوست میں جاری ہے۔

پاکستان چین تجارت کے لیے مین ڈرائی پورٹ سوست کے مقام پر بنایا گیا ہے جو کہ چائنا بارڈر، خنجراب پاس سے لگ بھگ 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

’بحران کا ذمہ دار کسٹم کا محکمہ ہے‘

یاور حسین کا تعلق گلگت شہر سے ہے۔ وہ اس دھرنے میں گلگت سے سوست آئے ہیں۔

ان کے بقول وہ روزمرہ زندگی کے معاملات چلانے کے لیے چھوٹی سطح پر کاروبار کرتے ہیں۔ وہ چین سے کمبل، پیالے، تھرمس، اوون مشین، موبائل کے پرزے اور کاسمیٹکس کا سامان درآمد کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ چھ ماہ سے سوست ڈرائی پورٹ پر سامان کی بندش کے باعث ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہاں ایف بی آر، پاکستان کسٹم مردہ باد مردہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ جو کہ انہیں قطعی طور پر اچھا نہیں لگ رہا۔ تاہم ان حالات کے پیدا کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں۔

ان کے بقول اس بحران کا ذمہ دار بھی کسٹم کا محکمہ ہے۔

یاور حسین کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت دونوں اطراف سے کسی بھی قسم کی تجارت نہیں ہو رہی ہے۔ خنجراب پاس صرف سیاحوں کے لیے کھلا ہے۔ تمام کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔

ان کے مطابق اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں بیگیج کا کام کرنے والے نوجوان بھی احتجاج میں شریک ہیں۔

یاور حسین نے کہا کہ گلگت بلتستان کے ڈومیسائل رکھنے والے افراد پر چین جانے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا کی شرط لاگو نہیں ہوتی۔ وہ چند ہزار روپے کے ذریعے بیگیج پاس حاصل کرنے کے بعد چھوٹے بیگز میں سامان لا سکتے ہیں جن کو مقامی مارکیٹ میں فروخت سکتے ہیں۔ تاہم اب ان کا کاروبار بھی مفلوج ہو گیا ہے۔

’بہت سارا تجارتی مال رُکا ہوا ہے‘

گلگت بلتستان وومن چیمبر آف کامرس خوش نور کا کہنا ہے کہ سوست ڈرائی پورٹ پر ان کا بھی بہت سارا تجارتی مال رُکا ہوا ہے جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف مالی بلکہ ذہنی پریشانی کا بھی سامنا ہے۔ کیوں کہ جن خواتین کو انہوں نے آرڈر پہنچانے ہیں وہ روزانہ فون کے ذریعے پوچھتی رہتی ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان کی خواتین کے لیے پنجاب کی نسبت چین سے ساز و سامان منگوانا زیادہ آسان ہے۔

ان کے بقول پرس، کاسمیٹکس اور خواتین سے متعلق دیگر اشیا کے نہ صرف دام مناسب ہوتے ہیں بلکہ کوالٹی بھی اچھی ہوتی ہے۔

خوش نور کا مزید کہنا تھا کہ چین میں بھی گلگت بلتستان کی خواتین کی تیار کردہ اشیا کی بہت مانگ ہے۔ اگست میں چین میں خواتین کے حوالے سے ایک نمائش کا بھی انعقاد ہو رہا ہے۔ تاہم ایسے حالات میں جب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں انہیں خدشہ ہے کہ شاید ان کا تجارتی وفد اس نمائش میں شرکت نہ کر سکے۔

’مسئلہ صوبائی حکومت کے بجائے وفاق کی جانب سے ہے‘

گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان خنجراب پاس کے ذریعے برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ 98 فی صد تجارت درآمدی اشیا کی ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان شاہ نے مزید کہا کہ ڈرائی پورٹ پر تاجروں کے سامان کو قبضے میں نہیں لیا گیا بلکہ وہ وہاں محفوظ ہے۔ تاہم موجودہ مسئلہ صوبائی حکومت کے بجائے وفاقی حکومت کی جانب سے ہے اور ایف بی آر کی واضح ہدایات ہیں کہ ملک کے دیگر سرحدوں جیسے طورخم، چمن اور تفتان بارڈر کی طرح خنجراب سرحد پر بھی نئے ٹیکس قوانین لاگو ہونے چاہیئں۔

ایمان شاہ نے بھی اس بات پر زور دیا کہ یہاں سے اس قسم کی آوازیں اکثر اٹھتی ہیں کہ جب گلگت بلتستان کی پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی نہیں ہے تو پھر یکساں ٹیکسوں کی وصولی کی بات کس طرح ہو سکتی ہے؟

وزیرِ اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کے مطابق مذاکراتی کمیٹی قائم ہو چکی ہے۔ تاجر برادری کے ساتھ کچھ نشستیں بھی ہوئی ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے ایام میں معاملہ حل کر لیا جائے گا۔

’سرحدی تجارت اپریل سے معطل ہے‘

مبصرین کا کہنا ہے پاکستان چین سرحدی تجارت کے ساتھ گلگت بلتستان کے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ اس کی بندش ایک بڑا طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔

گلگت بلتستان کے معاملات پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی عبدالرحمٰن بخاری کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر گلگت بلتستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے جہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور ایسے میں سرحدی تجارت کا بند ہونا لوگوں میں مزید بے چینی کا سبب بن رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی عبد الرحمٰن بخاری نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تجارت اپریل سے معطل ہے۔ پاکستان کسٹم کی جانب سے قوانین سخت کر دیے گیے ہیں۔

ان کے بقول تجارتی بندش کا نقصان نہ صرف مقامی مارکیٹ بلکہ پاکستان کی دور افتادہ منڈیوں پر بھی ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے بازاروں میں چینی مصنوعات کی قلت پیدا ہو گئی۔ اگر یہ سلسلہ مزید طوالت اختیار کرتا ہے تو علاقے میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ بھی جانیے

شہباز شریف کا دورۂ چین: 'پاکستان نے سیکیورٹی سے متعلق یقین دہانیاں کرائی ہیں'اسحاق ڈار کا دورۂ چین: 'بیجنگ کو اپنے شہریوں کے تحفظ کی فکر ہے'

عبدالرحمٰن بخاری نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور معاشی صورتِ حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں آئے روز احتجاجی مظاہرے کسی نئے خطرے سے خالی نہیں ہیں۔

ان کے مطابق گلگت بلتستان کو سی پیک کا گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ ایک سال سے امن و امان کے علاوہ بجلی، گندم سبسڈی، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال اور سرکاری سیاحتی مقامات اور گیسٹ ہاوسز کو مبینہ طور پر فوج کے ماتحت ایک کمپنی کے حوالے کرنے سے گلگت بلتستان احتجاج کی زد میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کا شمار روایتی طور پر پاکستان کے پُرامن علاقوں میں ہوتا تھا۔

احتجاج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہ ایک ایسے وقت میں جب سی پیک کے فیز-ٹو کی باتیں ہو رہی ہیں۔ صورتِ حال ایسی ہی رہتی ہے تو آنے والے دنوں میں اس کے منفی اثرات پاکستان چین اقتصادی راہ داری منصوبے پر بھی پڑ سکتے ہیں۔