افغانستان کے ساتھ طورخم سمیت پاکستان کی تمام سرحدی گزرگاہوں کو لگ بھگ ساڑھے چھ مہینوں کی بندش کے بعد دو طرفہ پیدل آمدورفت یعنی پیدل آنے جانے والوں کے لیے منگل سے کھول دیا گیا ہے۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ مصروف ترین گزرگاہ طور خم پر پہلے روز صرف 249 افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ ویزوں کا اجرا نہ ہونے کے باعث ابھی تک کوئی بھی پاکستانی باشندہ افغانستان میں داخل نہیں ہواِ، صرف راہداری رکھنے والے مزدوروں کو افغانستان میں داخلے کی اجازت دی گئی۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ طورخم سمیت تمام سرحدی گزرگاہیں ہفتے میں چار دن پیدل آنے جانے والوں کے لیے کھلی رہیں گی۔
کرونا وائرس سے پیدہ شدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر مارچ کے تیسرے ہفتے سے افغانستان کے ساتھ تمام سرحدی گزرگاہیں ہر قسم کی دو طرفہ تجارت اور آمدورفت کے لیے بند کر دی گئی تھیں۔
لیکن مئی کے وسط سے محدود پیمانے پر دو طرفہ تجارت کا سلسلہ افغان حکومت کی درخواست پر شروع کیا گیا تھا۔
دونوں ممالک میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اپنے اپنے گھروں تک جانے کے لیے بھی صرف طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو ہفتے میں ایک دن کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت پاکستان اور افغانستان کے شہریوں کو اپنے اپنے ممالک جانے کی اجازت تو دے دی گئی تھی مگر افغان باشندوں کو پاکستان اور پاکستانی باشندوں کو افغانستان جانے کی اجازت نہیں تھی۔
اس پابندی سے نہ صرف عام لوگ بلکہ دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہزاروں طلبہ بھی شدید متاثر ہوئے تھے۔
اگست کے آخر میں چمن بلوچستان کے مقامی لوگوں کے احتجاج کے بعد دونوں ممالک کے درمیان لوگوں کی آمدورفت پر عائد پابندی اُٹھائی گئی تھی۔
طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو پیدل افراد کے لیے کھولنے کے بارے میں گزشتہ ہفتے مقامی قبائلی مزدوروں اور دکان داروں نے احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا جو اتوار کو حکومت کی یقین دہانی پر ختم کردیا گیا تھا۔
طورخم کی گزرگاہ پر آمدورفت کی اجازت ملنے پر منگل کو مزدوروں نے خوشی کے اظہار کے مقصد سے بھی ایک مظاہرہ کیا اور راہداری رکھنے والے مزدوروں کی ایک بڑی تعداد روزمرہ کام کاج کے سلسلے میں افغانستان میں داخل ہوئی۔
قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سرکردہ رہنما ملک دریا خان ذخہ خیل نے طور خم کی سرحدی گزرگاہ کے دو طرفہ آمد ورفت کے لیے کھلنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔
اُنہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ماضی کی طرح مقامی قبائل کو راہداری کی بنیاد پر آنے جانے کی مزید سہولیات فراہم کرے کیوں کہ اس سرحدی گزرگاہ پر دو طرفہ تجارت اور آمدورفت سے ہزاروں لوگوں کی معیشت وابستہ ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ صنعت و حرفت کے ادارے کے نائب صدر ضیاء الحق سرحدی نے بھی سرحدی گزرگاہوں پر آمدورفت کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ دو طرفہ تجارت میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کے حل سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے 2018 کے انتخابات کے بعد افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے طورخم کی سرحدی گزرگاہ 24 گھنٹے کھلی رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
گزشتہ سال اگست سے وزیر اعظم کی ہدایات پر عمل در آمد شروع ہونے کے باوجود تاجر اور کاروباری حلقے طورخم میں رکاوٹوں اور مشکلات کی شکایات کرتے رہتے ہیں۔
وزیر اعظم کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق خان نے پچھلے دنوں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان آمدورفت اور دو طرفہ تجارت کو مزید آسان بنانے کے لیے ویزوں کا حصول آسان بنانے پر بھی زور دیا تھا۔