شام: امریکی بمباری میں القاعدہ رہنما ہلاک

فائل

'پینٹاگون' نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سنفی النصر نامی شدت پسند رہنما 'القاعدہ' کے خراسان گروپ سے منسلک تھا جو گزشتہ ہفتے امریکی طیاروں کی بمباری میں مارا گیا۔

امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کی شام میں ایک فضائی کارروائی میں القاعدہ سے منسلک ایک اہم شدت پسند مارا گیا ہے۔

'پینٹاگون' نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سنفی النصر نامی شدت پسند رہنما 'القاعدہ' کے خراسان گروپ سے منسلک تھا جو گزشتہ ہفتے امریکی طیاروں کی بمباری میں مارا گیا۔

بیان میں النصر کو ایک "پرانا جہادی" قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقتول 'القاعدہ' کی مختلف سرگرمیوں اور ان کے لیے فنڈ فراہم کرنے والے افراد کے درمیان پل کا کام کرتا تھا۔

بیان میں امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹر نے 30 سالہ سنفی النصر کی ہلاکت کو "امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملے کے خراسان گروپ کے منصوبوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ" قرار دیا ہے۔

امریکی محکمۂ خزانہ نے شامی باغی تنظیم 'النصرہ' اور 'القاعدہ' میں سرگرم کردار ادا کرنے کے الزام میں سنفی النصر کا نام 2014ء میں "عالمی دہشت گردوں کی خصوصی فہرست" میں شامل کیا تھا۔

'پینٹاگون' کے بیان میں کہا گیا ہے کہ النصر کا شمار 'القاعدہ' کے مرکزی منصوبہ سازوں میں ہوتا تھا جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر بارہا امریکیوں اور امریکی مفادات پر حملوں کی خواہش ظاہر کرچکا تھا۔

عالمی سطح پر سرگرم دہشت گردوں کی امریکی فہرست کے مطابق النصر ایران اور پاک افغان سرحدی علاقے میں ایک عرصے تک سرگرم رہنے کے بعد 2013ء میں شام منتقل ہوا تھا۔

گزشتہ ہفتے شامی باغیوں نے بھی حلب کے نزدیک اتحادی طیاروں کی بمباری میں سنفی النصر سمیت 'القاعدہ' سے منسلک تین جنگجو کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

باغیوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے بیانات میں کہا تھا کہ فضائی حملے میں عبدالمحسن عبداللہ الشاہریخ کے علاوہ سعودی شہری عبدالمالک الجزراوی اور مراکش کا ابو یاسر المغربی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ سنفی النصر، عبدالمحسن عبداللہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ابتداً پینٹاگون نے باغیوں کے ان دعووں کی تردید یا تصدیق کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مرنے والوں کی شناخت کی تصدیق ہونے کے بعد ہی اس ضمن میں کوئی بیان جاری کرے گا۔