بھارتی حکومت کے اعلیٰ حکام شمال مشرقی ریاست منی پور میں، اپنے ریاستی ہم منصبوں پر متحارب نسلی دھڑوں کو بات چیت میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں . وہ اکثریتی ہندو میتی کمیونٹی اور مسیحی کوکی قبائل کے درمیان ہفتوں سے جاری مہلک تشدد کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ اقدام بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی منی پور بحران کے بارے میں ایک اجلاس کی صدارت کے فوراً بعد سامنے آیا ہے۔
منی پور میں نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو کنٹرول حاصل ہے، جہاں تقریباً دو ماہ سے جاری تشدد میں کم از کم 115 افراد ہلاک اور 300 زخمی ہو چکے ہیں۔
مودی نے، جو مختلف لسلی گروہوں کے درمیان اس پرتشدد بحران پر عوامی سطح پر بات نہ کرنے کی وجہ سے بار بار تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں، پیر کو امریکہ اور مصر کے دورے سے واپسی کے چند گھنٹے بعد کابینہ کی اعلیٰ سطحی میٹنگ طلب کی تھی۔
میٹنگ کے دوران، سینئر وزراء نے انہیں شمال مشرقی پہاڑی ریاست میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں بتایا۔
کابینہ کی میٹنگ کے بعد، منی پور کی ریاستی حکومت کے عہدیداروں سے کہا گیا کہ وہ میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان اس تنازعے کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کریں۔
SEE ALSO: بھارتی ریاست منی پور میں فسادات؛ ماں بیٹے کو ایمبولنس میں زندہ جلا دیا گیاہفتہ کو دہلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ کی طرف سے بلائی گئی ایک غیر معمولی آل پارٹی میٹنگ نے بی جے پی کے قانون سازوں اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس تنازعہ پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کیا تھا-
میٹنگ اس کی واضح علامت ہے کہ منی پور میں حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ 3 مئی کے بعد سے ریاست میں آتش زنی کے 5000 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئےہیں اور ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ متعدد ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ میتی اور کوکی دونوں کمیو نیٹز کے مشتمل ہجوموں نے تشدد میں حصہ لیا ہے۔
ہفتہ کی میٹنگ کے بعد، منی پور ریاست کے چیف منسٹر این بیرن سنگھ نے کہا کہ وفاقی حکومت بحران کو کم کرنے میں سنجیدہ ہے اور ان کی ریاستی حکومت امن کی بحالی کے لیے وفاق کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
بیرن سنگھ نے دہلی میں شاہ سے ملاقات کے بعد اتوار کو ٹویٹ کی کہ، "شاہ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ مرکزی حکومت منی پور میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔"
منی پور میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں نے حال ہی میں ایک میمورنڈم جاری کیا تھاجس میں سنگھ کو تشدد سے نمٹنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس معاملے پر مودی کی "اٹل خاموشی" پر بھی سوال اٹھایا۔
سنیچر کی میٹنگ میں سنگھ نے یہ بھی کہا کہ منی پور کے اپوزیشن لیڈر 10 جون سے مودی سے ملاقات کی کوشش کے ایک حصے کے طور پر نئی دہلی میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، جنہوں نے ملاقات کا وقت نہیں دیا۔
شاہ نے سنیچر کی میٹنگ میں کہا کہ ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا ہے جب انہوں نے منی پور کے بحران پر مودی کے ساتھ بات چیت نہ کی ہو، جو انہیں اس بحران کے بارے میں ہدایات دیتے رہے ہیں۔
منی پور میں بی جے پی کے سربراہ سمبت پاترا نے دہلی میں نامہ نگاروں کو بتایا۔"زیادہ تر نوجوانوں نے (جنہوں نے منی پور میں تشدد میں حصہ لیاہے) اپنے ہتھیار پولیس کے حوالے کر دیے ہیں۔ ہم نے تمام پارٹیوں سے تجاویز لی ہیں، اور صحیح سمت میں قدم اٹھائے جا رہے ہیں،"
اگرچہ ہفتہ کی میٹنگ تشدد پر قابو پانے کے منصوبے کا کوئی خاکہ پیش کرنے میں ناکام رہی، لیکن کم از کم دو اپوزیشن جماعتوں نے مشورہ دیا کہ تشدد سے متاثرہ افراد کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے ایک آل پارٹی وفد منی پور کا دورہ کرے۔
میٹنگ کے بعد جاری کردہ آل انڈیا ترنمول کانگریس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے۔"منی پور کے لوگوں کے اعتماد کو بڑھانے اور زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ، آل انڈیا ترنمول کانگریس (AITC) اگلے ہفتے ریاست میں ایک آل پارٹی وفد بھیجنے کا مطالبہ کرتی ہے،
اس میں مزید کہا گیا ہے،جو پیغام اب تک گیا ہے وہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت منی پور کے بحران کو نظر انداز کر رہی ہے۔ اور یہ کہ امن اور ہم آہنگی کی بحالی کے لیے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
(شیخ عزیز الرحمان، وی او اے نیوز)