تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی کی پیر کو گرفتاری کے بعد ان کے کارکنوں کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہروں کے باعث ٹریفک کی روانی متاثر ہے جب کہ پولیس نے درجنوں افراد کو حراست میں لیتے ہوئے مقدمات بھی درج کیے ہیں۔
پنجاب حکومت نے امن و امان کی صورتِ حال برقرار رکھنے کے لیے رحیم یار خان، چکوال، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ میں بھی رینجرز طلب کر لی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں پہلے ہی رینجرز کو طلب کیا جا چکا ہے۔
لاہور پولیس نے سعد حسین رضوی سمیت تحریک لبیک کے کئی کارکنوں کے خلاف لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا ہے۔ مقدمات میں قتل، اغوا، توڑ پھوڑ اور امن و امان کو نقصان پہنچانے سے متعلق دفعات شامل کی گئی ہیں۔
ٹی ایل پی کی جانب سے پیر سے شروع ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا۔ جس کے باعث ملک کی کئی اہم سڑکیں بند ہیں اور ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہے۔
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے مطابق احتجاج کے باعث لاہور سے راولپنڈی جانے والی ہائی ویز 10 مقامات پر بند ہیں جب کہ لاہور سے ساہیوال جانے والا جی ٹی روڈ بھی پانچ مختلف مقامات پر بند ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق احتجاج میں شریک ٹی ایل پی کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ تھانہ کوٹ لکھپت اور شاہدرہ ٹاؤن میں دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق دونوں مقدمات میں دس دس افراد نامزد ہیں جب کہ لگ بھگ 300 نامعلوم افراد بھی شامل ہیں۔ ایف آئی آر میں کارِ سرکار میں مداخلت، ہنگامہ آرائی، اشتعال انگیزی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور پولیس اہلکاروں پر تشدد سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔
کراچی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے راجہ محمد ثاقب کے مطابق سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 19 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔
مختلف مقامات پر احتجاج کے باعث کراچی میں پیر کی شب کئی گھنٹوں تک بدترین ٹریفک جام رہا اور شہریوں کی بڑی تعداد رات گئے تک ٹریفک جام میں پھنسی رہی۔
وائس آف امریکہ کے پشاور سے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق صوبۂ خیبر پختونخوا کے کئی شہروں میں ٹی ایل پی کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے تاہم اب تک کسی قسم کے جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
SEE ALSO: تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی گرفتار، کارکنوں کا ملک بھر میں احتجاجیاد رہے کہ ٹی ایل پی کی مرکزی شورٰی نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ اگر حکومتِ پاکستان نے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت فرانس کے سفیر کو ملک بدر اور فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ نہ کیا تو وہ 20 اپریل کو لاہور سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔
سعد حسین رضوی کے اعلان کے بعد پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا تھا۔ پولیس کے مطابق سعد رضوی کو امن وامان کی صورتِ حال برقرار رکھنے کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی نظامِ زندگی متاثر
تحریک لبیک کے احتجاج کے باعث پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں نظامِ زندگی متاثر ہوا ہے۔
تحریک لبیک کی جانب سے اسلام آباد کے علاقے بھارہ کہو میں احتجاج کیا گیا جس کے باعث اسلام آباد سے مری جانے والی سڑک کو آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا۔
پولیس، رینجرز اور فرنٹیئر کور کے اہل کاروں کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد انٹرچینج پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ تحریک لبیک کی جانب سے ماضی میں مختلف مواقع پر فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
حکام نے فیض آباد انٹرچینج اور اس کے نواح میں موبائل فون سروس بھی معطل کر دی ہے۔
ادھر وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کی زیرِ صدارت اسلام آباد میں اعلٰی سطحی اجلاس ہوا جس میں تحریک لبیک کے احتجاجی مظاہرے اور امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعت کی جانب سے بند کیے گئے راستے فوری طور پر کھلوائے جائیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
ادھر نیشنل ہائی وے اتھاڑتی کی جانب سے بھی احتجاج کے پیشِ نظر شہریوں کو متبادل راستے اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں آکسیجن سلینڈروں کی کمی
ٹی ایل پی کے احتجاج کے باعث پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں آکسیجن سلینڈروں کی کمی کا سامنا ہے۔
سیکرٹری صحت پنجاب نبیل اعوان کے مطابق شہر کی مختلف سڑکیں اور راستے بند ہونے سے سرکاری اسپتالوں کو آکسیجن سلینڈروں کی سپلائی میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
لاہور کی یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) نے اپنے امتحانات کی جگہ اور شیڈول تبدیل کر دیا ہے۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق یونی ورسٹی کے زیرِ اہتمام میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے پریکٹیکل امتحانات جاری ہیں جب کہ امن عامہ کے پیشِ نظر بعض مراکز پر امتحانات کا انعقاد ممکن نہیں۔
پولیس اہل کاروں پر تشدد اور توڑ پھوڑ
ٹی ایل پی کے کارکنوں کی جانب سے پنجاب کے مختلف شہروں میں پولیس اہل کاروں پر تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں دکھائی جانے والی ایک ویڈیو میں ڈیرہ غازی خان میں مشتعل افراد ایک پولیس اہل کار کو تشدد کو نشانہ بنا رہے ہیں، اس دوران اہل کار کی وردی بھی پھٹ جاتی ہے۔
وزیرِ اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ لوگوں کو مارنا اور راستے بند کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ تشدد اور توڑ پھوڑ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کے بجائے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے چاہئیں۔
'حکومت اوچھے ہتھکنڈوں سے حوصلے پست نہیں کر سکتی'
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں تحریکِ لبیک پاکستان سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گزیز کیا، تاہم اُن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں سعد حسین رضوی کی گرفتاری کی مذمّت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت اوچھے ہتھکنڈوں سے ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ لانگ مارچ ضرور ہو گا جب کہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے پاکستان بھر میں کارکنان کو اپنے اپنے شہروں میں اکٹھا ہونے کی اطلاع دے دی ہے۔
ٹی ایل پی کا مطالبہ کیا ہے؟
تحریک لبیک نے فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر پاکستان سے فرانس کے سفیر کو 16 فروری تک بے دخل کرنے اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی فروری میں اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ان کی حکومت ٹی ایل پی کے مطالبات کو 20 اپریل کے بعد پارلیمنٹ میں لے کر جائے گی۔
اس سے قبل ٹی ایل پی نے مذکورہ معاملے پر ماضی میں طے پانے والے ایک معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی جسے 11 جنوری کو طے پانے والے نئے معاہدے کے بعد ملتوی کر دیا گیا تھا۔
گیارہ جنوری کو ہونے والے معاہدے میں حکومت کی نمائندگی وفاقی وزیرِ مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کی تھی۔ ٹی ایل پی کی نمائندگی کرنے والوں میں غلام غوث، ڈاکٹر محمد شفیق، غلام عباس اور محمد عمیر شامل تھے۔