نیو یارک کے ٹائمز سکوئر میں کار بم پھاڑنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی نژاد فیصل شہزاد نے کھلی عدالت میں خود پر لگائے گئے تمام الزامات قبول کرتے ہوئے کہا: ‘‘ میں ایک دفعہ نہیں سو دفعہ اقبال جرم کرتا ہوں کیونکہ جب تک امریکہ عراق اور افغانستان سے اپنی فوجیں واپس نہیں بلا لیتا، یمن اور صومالیہ میں ڈرون حملے بند نہیں کر دیتا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام ختم نہیں کر دیتا، ہم امریکہ کی سرزمین پر حملے جاری رکھیں گے۔ ”
پیر کی دوپہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کھچاکھچ بھری نیو یارک کی ایک عدالت میں جب تیس سالہ فیصل شہزاد کو لایا گیا تو اُس نے جیل خانے کے لباس کے ساتھ سر پر نماز کی سفید ٹوپی پہن رکھی تھی اور ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ کمرے میں داخل ہو کر جب اُس نے حاضرین کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکان تھی اور جب وہ جج مِریم سیڈربام کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے تو ان کی آواز پر اعتماد تھی۔
شہزاد نے بتایا کہ وہ خود کو ایک مجاہد تصور کرتے ہیں اور امریکی شہریوں کو قتل کر کے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے خون کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُس نے جان بوجھ کر نیو یارک کے مشہور ٹائمز سکوئر میں کار بم پھاڑنے کے لیے شام چھ سوا چھ بجے کا وقت چنا تھا کیونکہ اس وقت ٹائمز سکوئر میں بہت رش ہوتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ جانیں لینا چاہتے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُس نے سنہ 2009 میں امریکی شہری بننے کے ایک یا دو ماہ بعد ہی امریکہ کو خیر باد کہہ دیا تھا اور اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ اپنے والدین کے پاس پشاور چلے گئے تھے کیونکہ وہ طالبان سے رابطہ کرنا چاہتے تھے۔ عدالت کو مزید تفصیلات بتاتے ہوئے اُس نے کہا کہ وہ نو دسمبر 2009 کو چند دوستوں کے ساتھ وزیرستان گئے جہاں اُس نے چالیس دن تحریک ِطالبان پاکستان کے لیڈروں کے ساتھ گزارے، جن میں سے پانچ دن مختلف قسم کے بم بنانے کی تربیت حاصل کی۔
شہزاد کے مطابق اُس نے وزیرستان میں بیٹھ کر امریکہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اُن کے پاس ساڑھے چار ہزار ڈالر تھے۔ تحریک طالبان نے اُسے اس کام کے انتظامات کے لیے چار ہزار نو سو ڈالر مزید دیے اور امریکہ آنے کے بعد بھی اُسے دو دفعہ مزید رقم بھیجی۔
شہزاد نے بتایا کہ اُن کی مادری زبان پشتو ہے اور وزیرستان میں وہ پشتو میں طالبان سے بات چیت کرتے تھے۔ اُس کے مطابق تحریک طالبان کے پاس اردو زبان میں بم بنانے کے چھپے ہوئے نسخے موجود تھے لیکن چونکہ ان کی اردو کمزور ہے اس لیے اُس نے ان نسخوں کا انگریزی ترجمہ کیا اور اس کی کمپیوٹر فائل بنا کر اپنے ساتھ لائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ آ کر اُس نے ریاست کنیٹکٹ کے شہر برج پورٹ میں رہائش کی جگہ کرائے پر لی اور بم بنانے کا سامان جمع کرنا شروع کر دیا۔ اس کام میں اُن کو فروری سے اپریل 2010 تک کا وقت لگا اور بالآخر وہ بم بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
شہزاد نے تین مختلف قسم کے بم ایک گاڑی میں نصب کیے: ایک کھاد کا بنا ہوا، دوسرا گیس کی ٹنکیوں کا اور تیسرا پٹرول کا۔ دھماکہ خیز مواد سے بھری یہ گاڑی وہ خود یکم مئی کو چلا کر ٹائمز سکوئر لائے، تینوں بموں کے فیوز جلائے اور ایک دو منٹ کے بعد گاڑی سے نکل کر ٹرین سٹیشن کی طرف چل پڑے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ راستے میں دھماکے کی آواز کا انتظار کرتے رہے اور جب یہ آواز نہیں آئی تو وہ سمجھ گئے کہ بم نہیں پھٹے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اِس واقعے کے دو دن بعد اُسے خبریں سن کر اندازہ ہوا کہ پولیس کو اُن کا سراغ مل گیا ہے اور وہ فوراً فرار کے ارادے سے ائر پورٹ روانہ ہو گئے۔ وہ دبئی جانے والے جہاز پر سوار ہو چکے تھے جب اُن کو گرفتار کر لیا گیا۔
شہزاد کے مطابق اگرچہ اُس نے امریکی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے لیکن جو کچھ کیا وہ ‘‘میری نظر میں جرم نہیں۔”
اُن کو پانچ اکتوبر کو سزا سنائی جائے گی۔ اُن کے خلاف عدالت میں لگائے گئے دس الزامات میں سے پانچ میں عمر قید کی سزا ممکن ہے۔