روس پر نئی پابندیوں پہ میں اور صدر ٹرمپ خوش نہیں: ٹلرسن

امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن۔ فائل فوٹو

امریکی کانگریس نے گذشتہ ہفتے روس کے خلاف جن نئی پابندیوں کا حکم دیا تھا، وہ مسٹر ٹلرسن کے نزدیک کار گر نہیں ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے منگل کے روز محکمہ خارجہ کی ڈیلی بریفنگ میں پہلی بار شامل ہو کر ، دوسرے اہم موضوعات کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا ، وینزویلا ، چین ، مشرق وسطیٰ ، روس اور یوکرین کے لئے امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنا خاکہ پیش کرکے نامہ نگاروں کو حیران کر دیا۔

کریملن کے راہنما ولادی میر پوٹن کی جانب سے ماسکو میں امریکی سفارت کاروں کی تعداد میں نمایاں کمی کے حکم کے بعد روس کے ساتھ امریکی تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا تو مسٹر ٹلرسن نے کہا کہ صورتحال خراب ہے اور یہ مزید خراب بھی ہو سکتی ہے۔

چھ ماہ سے اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار کے طور پر فائز امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے نامہ نگاروں کو اس بارے میں تفصیلات فراہم کیں کہ وہ روس سمیت، جس پر اس وقت ملک میں سب سے زیادہ توجہ مرکوز ہے، دنیا بھر کے ملکوں کے ساتھ تعلقات کو کس طرح دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کو بار بار انتباہ کر چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہیں اور یہ اور یہ مزید بگڑ سکتے ہیں اور وہ ہو چکے ہیں۔

امریکی کانگریس نے گزشتہ ہفتے روس کے خلاف جن نئی پابندیوں کا حکم دیا تھا، وہ مسٹر ٹلرسن کے نزدیک کار گر نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب جب کانگریس نے ان پابندیوں کے نفاذ کا اقدام کیا ہے اور جس طریقے سے کیا ہے، اس پر نہ تو صدر اور نہ ہی میں بہت خوش تھے۔ ہمارا واضح خیال تھا کہ یہ ہماری کوششوں کے لیے مفید نہیں ہو گا لیکن یہ وہ فیصلہ ہے جو انہوں نے کیا ۔ انہوں نے یہ بہت بھاری اکثریتی طریقے سے کیا۔ میرا خیال ہے کہ صدر اسے قبول کرتے ہیں اور تمام علامات یہ ہی ہیں کہ وہ اس بل پر دستخط کر دیں گے اور اس کے بعد پھر ہم اس کے ساتھ لازمی طور پر وابستہ رہیں گے۔

نائب صدر نائب پینس منگل کے روز سابق سویت جمہوریہ جارجیا کے اپنے دورے کے دوران روس کے پڑوسیوں کو از سر نو یقین دہانی کی کوشش کرتے ہوئے ایک مختلف بات کہتے دکھائی دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری وابستگی کی ایک مزید علامت کے طور پر صدر ٹرمپ روس کے خلاف پابندیوں کو تقویت دینے اور انہیں قانونی شکل دینے سے ہے ۔ امریکہ باہمی تعاون اور مشترکہ مفاد کی بنیاد پر روس کے ساتھ تعمیری تعلقات کو ترجيح دیتا ہے۔ لیکن امریکہ اور ہماری کانگریس روس کے لیے ہمارے اس پیغام پر متحد ہیں اور وہ یہ کہ بہتر تعلقات، اور پابندیوں کا خاتمہ روس سے اس کے ان اقدامات میں یکسر تبدیلی کا متقاضی ہو گا جو اس کے خلاف اولاً پابندیوں کے نفاز کا موجب بنے تھا۔

خارجہ پالیسی کے دوسرے ماہرین نے بھی مثلاً اٹلانٹک کونسل سے وابستہ سفیر جان ہربسٹ، جنہوں نے اسکائپ کے ذریعے وی او اے کے ساتھ بات کی اور کانگریس کی جانب سے روس کے خلاف پابندیوں کی منظوری کا خیرمقدم کی۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ کانگریس نے ابھی ابھی جو اقدامات کیے ہیں وہ یوکرین اور ہماری پالیسی کے لیے، بہت مثبت ہیں۔ کیوں کہ یہ واضح ہے کہ کریملن کی جارحیت کے خمیازے میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اور اگر یہ بہت زیادہ بڑھا تو ماسکو کو، ماسکو نواز سر گرم کارکنوں کے ایک مرکز، یوکرین کے علاقے ڈانبس میں اپنی پالیسیوں کو یکسر پلٹنا پڑے گا۔ اور اگر اس نے وہاں اپنی پالیسی یکسر تبدیل کی تو غالبا ً اس کا درمیانی مدت اور طویل مدت کے لیے جارجیا سے متعلق اس کی پالیسی پر ایک مثبت إثر ہو گا۔

کیپیٹل ہل میں دونوں بڑی جماعتوں کے امریکی سنیٹرز نے گذشتہ ہفتے اس بل کو دستخط کے لیے صدر ٹرمپ کے پاس بھیجنے کے بعد ان پر زور دیا تھاکہ وہ مزید تاخیر کیے بغیر اس پر دستخط کر کے اسے قانونی شکل دے دیں۔