کابل: ٹلرسن کی اشرف غنی سے ملاقات، نئی امریکی حکمتِ عملی زیرِ غور

بگرام ایئربیس

صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ نئی امریکی حکمتِ عملی کے باعث خطے میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اور، صدارتی محل کے ایک بیان کے مطابق، ’’مزید یہ کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریق سچائی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں‘‘

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا ہے، جہاں اُنھوں نے ملک کے قائدین سے جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکہ کی نئی حکمتِ عملی پر گفتگو کی ہے۔

افغان صدر کے دفتر کے مطابق، اپنے مختصر قیام کے دوران، ٹلرسن، جو اس وقت مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے دورے پر ہیں، پیر کے روز صدر اشرف غنی؛ چیف اگزیکٹو عبداللہ عبداللہ؛ قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر سے ملاقات کی۔ یہ بات چیت کابل سے باہر بگرام کے فضائی اڈے پر ہوئی۔

کابل میں امریکی سفارت خانے کے ایک بیان کے مطابق، ’’وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی امریکی حکمتِ عملی افغان حکومت اور خطے بھر کے ساجھے داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امریکی عزم کو واضح کرتی ہے، تاکہ افغانستان میں امن حاصل کیا جائے اور دہشت گردوں سے محفوظ ٹھکانے چھینے جائیں، جو اس ہدف کے لیے خطرے کا باعث ہیں‘‘۔

غنی نے کہا کہ نئی امریکی حکمتِ عملی کے باعث خطے میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اور، صدارتی محل کے ایک بیان کے مطابق، ’’مزید یہ کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریق سچائی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں‘‘۔

چیف اگزیکٹو افسر نے کہا ہے کہ ’’علاقائی ملکوں کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیئے کہ ماحول تبدیل ہو چکا ہے‘‘۔

ایک طویل عرصے سے، امریکہ اور افغانستان الزام لگاتے آئے ہیں کہ افغان طالبان، خاص طور پر اُن کی مہلک ترین شاخ، حقانی نیٹ ورک، کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے ہیں۔ لیکن، پاکستان دعویٰ کرتا ہے کہ فوجی کارروائی کے دوران، افغانستان کے ساتھ ملحق پچھلے لاقانون قبائلی علاقوں میں پہلے موجود تمام شدت پسند ٹھکانوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔

امریکی شہری کیٹلان کولمن اور اُن کے کینیڈا کے شوہر، جوشوا بوئیل، جنھیں پانچ برس قبل افغانستان سے اغوا کیا گیا تھا، اُنھیں حال ہی میں بازیاب کرایا گیا تھا۔ اُن کے ساتھ اُن کے بچے بھی قید میں تھے۔ بازیاب کرانے کی یہ کارروائی امریکی انٹیلی جنس پر پاکستانی فوج نے کی تھی۔

گذشتہ ہفتے، سی آئی اے کے سربراہ، مائیک پومپیو نے واشنگٹن میں قائم ’فاؤنڈیشن فور ڈفنس آف ڈیموکریسیز‘ کو بتایا کہ مغویوں کا قید و بند کا زیادہ تر عرصہ پاکستان میں گزرا۔

اس بات سے، پاکستان کی فوج اور حکومت کی جانب سے اس سے قبل جاری کردہ بیانات کی نفی ہوتی ہے کہ مغوی حال ہی میں افغانستان سرحد سے اس پار داخل ہوئے تھے۔

سکیورٹی تشویش کے باعث، امریکی وزیر خارجہ کے دورہٴ افغانستان کو خفیہ رکھا گیا تھا، خاص طور پر گذشتہ ماہ کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کے تناظر میں، جب امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے دورہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ امریکی محکمہٴ خارجہ کی میڈیا ٹیم تک کو یہ پتا تھا کہ یہ دورہ جمعرات کو ہوگا، جب وزیر خارجہ بھارت سے واپس لوٹیں گے۔