ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے وزیرِ اعظم عمران خان کو بیرونِ ممالک سے ملنے والے تحائف کی تفصیل نہ دینے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکمران جماعت ماضی میں جن کاموں پر حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے وہی کام اب خود کر رہی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کابینہ ڈویژن کا ان تحائف کی فہرست کو چھپانا ظاہر کرتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے کچھ غلط کیا ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت نے وزیرِ اعظم عمران خان کو بیرونِ ممالک سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات عام شہری کی درخواست پر انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) میں دینے سے انکار کیا۔ جب کہ اس بارے میں انفارمیشن کمیشن کے اختیار کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ تحائف کی تفصیل جاری ہونے سے میڈیا ہائپ اور غیر ضروری خبریں پھیلیں گی۔ اس کے ساتھ مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر اور ملکی وقار مجروح ہو گا۔
کابینہ ڈویژن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ پی آئی سی کا حکم غیر قانونی اور بغیر قانونی اختیار کا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی کے دو وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کے مختلف تحائف کم قیمت یا بغیر قیمت ادا کیے اپنے قبضہ میں رکھنے پر نیب کے ریفرنس قائم کیے گئے ہیں جو اس وقت بھی زیرِ سماعت ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان انفارمیشن کمیشن اور شہری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔
اسلام آباد کے ایک شہری ابرار خالد نے اپنی درخواست میں پاکستان انفارمیشن کمیشن سے وزیرِ اعظم عمران خان کو اب تک موصول ہونے والے تحائف کے بارے میں تفصیلات مانگی تھیں۔
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اس معاملے پر درخواست قبول کرتے ہوئے کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی تھی کہ غیر ملکی سربراہان مملکت، حکومتوں کے سربراہ اور دیگر غیر ملکی معززین کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان کو موصول ہونے والے تحائف کے بارے میں مطلوبہ معلومات فراہم کریں۔
اس کے ساتھ ہی وزیرِ اعظم عمران کے اپنے پاس رکھے ہر تحفے کی تفصیل، وضاحت اور وہ قواعد جن کے تحت انہوں نے تحائف وصول کیے اور اپنے پاس رکھے بتائے جائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کابینہ ڈویژن کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ مطلوبہ معلومات 10 روز کے اندر فراہم کرے اور اسے سرکاری ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کرے۔
کابینہ ڈویژن نے پی آئی سی میں دائر اس درخواست کی مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ 2017 کے معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
ڈویژن نے چار اپریل 1993 کے ایک خط کا حوالہ بھی دیا جس میں توشہ خانہ کی تفصیلات کو کلاسیفائیڈ قرار دیا گیا تھا۔ ڈویژن کا استدلال تھا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عادل گیلانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت وہ سب کام کر رہی ہے جن پر ماضی میں وہ مختلف حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کے سامان کی تفصیلات کسی صورت مخفی نہیں ہیں۔ اگر یہ اسٹیٹ سیکرٹ ہوتا تو ماضی میں شوکت عزیز، آصف علی زرداری، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف تحریک انصاف کی حکومت نے ہی نیب ریفرنس بنائے ہیں، ایک سیکرٹ معاملے پر کس طرح ریفرنس بن سکتے ہیں۔
اگر اس حوالے سے کوئی قانون سازی کی گئی ہے تو یہ ریاستی گرفت والا معاملہ ہے کہ اپنے لیے تو قانون الگ سے بنا لیا جائے لیکن دوسروں پر تنقید کی جائے۔
عادل گیلانی نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے، جب انفارمیشن کمیشن نے حکم دے دیا تو حکومت کو اس بارے میں فوری معلومات فراہم کرنا چاہیں۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا اور عدالت کے ذریعے چھپنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس مطلب ہے کہ وہ غلطی پر ہے۔
وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کو ملنے والے تحفے رکھنا مقصود ہو تو اس کی رقم جمع کرائی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بیان میں شہباز گل نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو ملنے والے تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے جاتے ہیں اور کوئی تحفہ پاس رکھنا مقصود ہو تو پیسے خزانے میں جمع کرائے جاتے ہیں۔
انہوں نے تحائف رکھے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں تحفے کے لیے 15 فی صد تک رقم جمع کرائی جاتی تھی۔ البتہ تحریک انصاف کی حکومت میں تحفے کی رقم 50 فی صد جمع کرائی جاتی ہے۔ ماضی کی طرح تحائف غائب نہیں ہوتے۔
شہباز گل کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک جب ملکی سربراہ کو تحائف دیتے ہیں تو کوئی بھی ملک نشر نہیں کرنا چاہتا کہ ان کا تحفہ کتنے روپے کا ہے۔ ان کے تحفے کا دوسرے ممالک کے تحائف سے موازنہ بھی برا سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو ملنے والے تمام تحائف ملکی قوانین کے تحت توشہ خانہ میں جمع کرائے جاتے ہیں۔
توشہ خانہ کیا ہے؟
پاکستان میں رائج قانون کے مطابق جب بھی کوئی حکمران یا بیوروکریٹ کسی سرکاری دورے پر بیرونِ ملک جائے اور اسے وہاں تحائف ملیں تو وہ وطن واپس کر یہ تحائف اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کراتا ہے۔
سرکاری قوانین کے تحت سرکاری افسر، عوامی نمائندے یا مسلح افواج سے وابستہ کوئی بھی افسر سرکاری تحائف ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ یہ تحائف فی الفور کابینہ ڈویژن کے ماتحت سرکاری تحائف کی تحویل کے مرکز توشہ خانہ میں جمع کیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
توشہ خانہ پاکستان بننے کے بعد وزارتِ خارجہ کے ماتحت تھا۔ لیکن 1973 میں اسے کابینہ ڈویژن کے ماتحت کر دیا گیا۔ صوبائی سطح پر ملنے والے سرکاری تحائف ‘ایس اینڈ جی اے ڈی’ کے ماتحت کیبنٹ سیکشن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔
رولز کے مطابق ایسا تحفہ جس کی مالیت 10 ہزار روپے تک ہو۔ وہ تحفہ کسی قیمت کے بغیر ہی وصول کرنے والے کو دیا جا سکتا ہے۔
ایسا تحفہ جس کی مالیت 10ہزار روپے سے زیادہ ہو وہ قیمت کا 15 فی صد ادا کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں چار لاکھ روپے یا اس سے زائد مالیت کا تحفہ صدر اور وزیرِ اعظم کے سوا کسی کو رعایتی قیمت پر نہیں دیا جاسکتا۔
ایسے تحائف کو سال میں دو مرتبہ نیلامی میں فروخت کیا جاتا ہے اور خریداری کے لیے پہلی ترجیحی اسی فرد کو دی جاتی ہے جسے یہ تحفہ ملا ہوتا ہے۔