اسلام آباد میں احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی پر فردِ جرم عائد کر دی ہے۔ جب کہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے۔
احتساب عدالت کے جج سید اصغر علی کی سربراہی میں توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی بطور ملزم پیش ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف لندن میں ہونے کے باعث پیش نہیں ہوئے، جس پر جج اصغر علی نے کہا کہ پہلے نواز شریف کا کیس الگ کریں گے پھر دیگر پر فردِ جرم عائد کریں گے۔
سماعت کے دوران احتساب عدالت کے جج سید اصغر علی نے کہا کہ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد کرتے ہیں۔
جج نے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ آپ نے چارج شیٹ پڑھنی ہے تو پڑھ لیں۔
اس موقع پر وکیل صفائی نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ سمری کی منظوری دے۔ نیب نے اختیارات کا غلط استعمال کر کے غلط ریفرنس بنایا ہے۔
عدالت کی جانب سے فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے صحتِ جرم سے انکار کیا۔
اس موقع پر سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی خود روسٹرم پر آئے اور فردِ جرم پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی قانون کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ قانون کے مطابق جو سمری آئی، اسے منظور کیا۔ اگر سمری غلط ہوتی تو آگے نہ بڑھتی۔
جج اصغر علی نے کہا کہ قانون کے مطابق کارروائی آگے بڑھانی ہے۔ ہم ابھی کیس کے میرٹس پر بات نہیں کر رہے کہ سمری کیسے آئی اور منظور ہوئی۔ یہ بات تو آپ ٹرائل کے دوران عدالت کو بتائیں۔
بعد ازاں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت 24 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
پیشی کے موقع پر آصف علی زرداری نے میڈیا نمائندوں سے مختصر بات چیت کی۔
فردِ جرم عائد کیے جانے کے سوال پر آصف زرداری نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے، ہم پہلے بھی سرخرو ہوتے رہے، اب بھی ہوں گے۔
نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے پر انہوں نے کہا کہ نواز شریف اپنے ذمہ دار خود ہیں۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
شہباز شریف کے ساتھ حالیہ ملاقات اور ماضی میں انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے سے متعلق شہباز شریف کے بیان پر آصف علی زرداری نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سیاست میں کبھی کچھ اور کبھی کچھ ہوتا ہے۔
توشہ خان ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو عدالت نے اشتہاری قرار دیا اور ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔
عدالت نے کہا کہ سات روز میں نواز شریف کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی تفصیلات پیش کی جائیں، جب کہ عدم پیشی پر جائیدادیں منجمد کر دی جائیں گی۔
کمرہ عدالت میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی
بدھ کو احتساب عدالت میں ہی پارک لین ریفرنس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی بھی سماعت ہوئی۔
یہ سماعت جج اعظم خان کی عدالت میں ہوئی جس میں سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد پر وکیل صفائی نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ سب کس کو رپورٹ کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں باہر نکالا جائے لیکن جج اعظم خان نے اس پر کوئی ریمارکس نہیں دیے۔ فاروق ایچ نائیک نے کمرۂ عدالت میں محدود تعداد میں صحافیوں کو بلانے کا بھی کہا۔
میگا منی لانڈرنگ کرپشن کیس میں آصف علی زرداری پر فرد جرم 17 ستمبر تک موخر کردی گئی۔
سرنڈر کرنے کے فیصلے کے خلاف نوازشریف کی نئی درخواست
العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف نے سرنڈر کرنے کے حکم پر نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے۔
نوازشریف نے وکیل خواجہ حارث کے ذریعے درخواست دائر کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم دیا تھا۔
درخواست میں نواز شریف کی چار ستمبر کی میڈیکل رپورٹ بھی درخواست کے ساتھ منسلک ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ نواز شریف ہائپر ٹینشن اور امراضِ قلب سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ یہ میڈیکل رپورٹ نواز شریف کے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ آر لارنس نے جاری کی۔
نواز شریف نے درخواست کی کہ عدالت پیشی کا حکم ختم کر کے نمائندے کے ذریعے اپیل میں پیش ہونے کا موقع دے، جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ طلبی کے احکامات بھی واپس لے۔
توشہ خانہ ریفرنس ہے کیا؟
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے صرف 15 فی صد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔
نیب نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور قوانین کو نرم کیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ آصف زرداری کو ستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو 750، ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007 اور لیبیا سے بی ایم ڈبلیو 760، ماڈل 2008 گاڑیاں تحفے میں ملیں۔
مذکورہ ریفرنس کے مطابق سابق صدر فوری طور پر ان گاڑیوں کی اطلاع دینے اور کابینہ ڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کرانے کے پابند تھے، لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا اور نہ ہی اُنہیں جمع کرایا گیا۔
نیب ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے طریقۂ کار میں غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔
ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے نیشنل بینک آواری ٹاور کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کو ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی۔ ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کو مجموعی طور پر دو کروڑ تین لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔
نیب کا الزام ہے کہ خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے تین ارب 71 کروڑ 60 لاکھ روپے کی خطیر رقم ادا کی۔
نیب نے ان افراد کو بدعنوانی کا مرتکب ٹھیراتے ہوئے عدالت سے انہیں قرار واقعی سزا دینے کی استدعا کی ہے۔