گلگت بلتستان میں لڑکیوں کے اسپورٹس گالا کا نام کیوں تبدیل کرنا پڑا؟

اس ایونٹ کا نام پہلے 'گرلز اسپورٹس گالا' رکھا گیا تھا۔

گلگت بلتستان میں علما اور انتظامیہ کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد لالک جان اسٹیڈیم میں خواتین کا تین روزہ 'اویئرنیس فیئر' جاری ہے۔ اس فیسٹول کے لیے سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں اور ایونٹ میں مردوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیاہے۔

اس ایونٹ کا نام پہلے 'گرلز اسپورٹس گالا' رکھا گیا تھا تاہم سوشل میڈیا پر مختلف نوعیت کی خبریں پھیلنے کے بعد مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما نےاس کی مخالفت کی۔گلگت میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال دی اور سڑکوں پر ٹائر بھی جلائے۔

تاہم انتظامیہ اور علما کے درمیان کامیاب مذاکرات بعد ان کھیلوں کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوگئیں اور کچھ تیکنیکی مسائل کو حل کرتے ہوئے ایونٹ کا نام 'گرلز اسپورٹس گالا' سے تبدیل کرکے 'اویئرنیس فیئر' رکھ دیا گیا۔

خواتین اویئرنیس فیئر کی دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس ایونٹ کی مہمان خصوصی غذر بوبر میں حالیہ سیلاب کے باعث اپنی ماں اور 6 بہن بھائیوں کو کھودینے والی قندیل سحر کو چنا گیا تھا۔ تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔

خیال رہے کہ حکومتِ گلگت بلتستان نے خواتین اویئرنیس فیئر سے متعلق پہلے ہی ایس او پیز جاری کردیے تھے، جس میں ایونٹ کے آغاز سے اختتام تک تمام تر منتظمین اور دیگر امور کی دیکھ بھال صرف خواتین کر رہی ہیں اور تقریب کے مقامات پر کسی مرد کا داخلہ ممنوع ہے۔اس تین روزہ ایونٹ میں ذرائع ابلاغ کو بھی کسی قسم کی تصویر اور ویڈیو اپ لوڈ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اس ایونٹ کی کوریج کرنے والے گلگت کی مقامی صحافی کرن قاسم کا کہنا ہے کہ خواتین کی آگہی کے لیے ایونٹ میں مختلف اسٹالز لگائے گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایونٹ میں خواتین کی بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت مند زندگی گزارنے سے متعلق آگہی پروگرامز، بریسٹ کینسر سے متعلق لیکچرز منعقد کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ امورِ خانہ داری، مقامی ڈشز، سلائی کڑھائی، فن دست کاری، مختلف کھانوں کے اسٹالز، خون کی اسکریننگ، دماغی صحت اورحفظانِ صحت سے متعلق آگاہی، خواتین کی انٹرپرینیور شپ، ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق معلوماتی ڈیسک قائم کی گئی ہیں۔

کرن قاسم کہتی ہیں کہ فیئر کے پہلے روز انڈور کھیلوں میں کرکٹ ہاکی اور فٹبال کے میچز کھیلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ایونٹ میں سیکیورٹی اور انتظامی امور خواتین ہی دیکھ رہی ہیں اور مردوں کا داخلہ سختی سے ممنوع ہے۔حتیٰ کہ کرکٹ میچ میں امپائرنگ کے فرائض بھی خواتین ہی انجام دے رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو بھی ایونٹ کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل یا مقامی میڈیا پر جاری کرنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ تین روزہ ایونٹ کسی بھی قسم کی بدمزگی کا شکار نہ ہو۔

کرن قاسم کے مطابق خواتین کھلاڑیوں میں بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے اور وہ ہر کھیل میں بھرپور انداز میں اپنی توانائی صرف کر رہی ہیں۔

'حکومت نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے'

دوسری جانب علاقے کے علما کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شیخ مرزا علی نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر خواتین کی کھیلوں کی سرگرمیوں کے خلاف نہیں ہیں تاہم ان کی جماعت کی جانب سے اس میں اسکارف کی پابندی کو یقینی بنائے جانے پر زور دیا گیا ہے۔

مولانا آصف عثمانی کا تعلق اہلسنت ولجماعت سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ویمن اسپورٹس گالا کو جائز نہیں سمجھتے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسپورٹس گالا کا جب انعقاد ہو رہا تھا تو چیف سیکریٹری نے کسی سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس ایونٹ کی ترتیب دیکھنے کے بعد علمانےاسے شریعت سے متصادم قرار دیتے ہوئےاس کی مخالفت اور مذمت کی۔جس کے بعد علامتی احتجاج کی کال دی گئی تھی۔

ان کے بقول اس کے بعد انہوں نے انتظامیہ پر ایونٹ کی منسوخی کے لیے زور دیا۔ تاہم چار اکتوبر کو انتظامیہ کے ساتھ رات دیر تکمذاکرت ہوئے جس میں انہیں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ایونٹ میں آؤٹ ڈور کھیلوں کا انعقاد نہیں ہو گا۔ دوسرا یہ کہ ایونٹ کو اسپورٹس گالا کے بجائے مینا بازار میں تبدیل کر دیا جائے گا۔

SEE ALSO: گلگت بلتستان میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ کیوں؟

مولانا آصف عثمانی کے مطابق سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی کچھ تصویروں کے بعد انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔جس پر تمام مکاتب فکر کے علما کو شدید تحفظات ہیں اور اس سلسلے میں آئندہ کی حکمتِ عملی واضح کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا آصف عثمانی نے بتایا کہ اس ایونٹ کے دوران وہ کسی بھی قسم کی ہلڑ بازی نہیں چاہتے کیوں کہ اس سے علما اور ریاست کے درمیان ٹکراؤ کا خدشہ ہے۔اسی لیے وہ اب اپنی توجہ آئندہ کی حکمتِ عملی پر مرکوز کر رہے ہیں۔

'گلگت میں پہلی مرتبہ ایسے کھیلنے کا موقع ملا ہے'

مالوف کرن غذر کی جانب سے کرکٹ کھیل رہی ہیں۔ ان کے بقول گلگت میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر کھیلنے کا موقع ملا ہے اور وہ بہت ہی پرجوش ہیں۔

وہ بی ایس کی طالبہ ہیں،ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی وہ اسکول میں مختلف مقابلوں میں شرکت کرتی آئی ہیں۔ وہ مستقبل میں ایجوکیشن ایڈمنسٹریشن کا شعبہ اپنانا چاہتی ہیں۔

گلگت شہر سے تعلق رکھنے والی منیزہ ناصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اسکول اور کالج میں باسکٹ بال کی کھلاڑی رہ چکی ہیں۔ تاہم اس وقت وہ بطور تماشائی یہ مقابلے دیکھ رہی ہیں اور بہت زیادہ محظوظ ہو رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کھیل دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہ مختلف اسٹالزکو بھی وزٹ کر رہی ہیں۔ اور اپنے علاقے کی ثقافت اور کھانوں کو ایک جگہ دیکھ کر بہت خوش ہو رہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گلگت کی خواتین کو بھی اس قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیےاور جب تک اس قسم کے کھیل نہیں ہوں گے تو یہاں کی خواتین اپنا ہنر کیسے سامنے لائیں گی۔

انہوں نے گلگت بلتستان حکومت سے اس قسم کے مزید اسپورٹس پروگرامز کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان گیمز سے نہ صرف کھلاڑی بلکہ دیگر لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ اور اگلی مرتبہ وہ چاہیں گی کہ تماشائی کی بجائے کھیل کے میدان میں دوڑتی نظر آئیں۔