"اپنے بیوٹی پارلر میں موجود خاتون کو میں نے اونچی آواز میں بات نہ کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ قریب ہی طالبان کی چیک پوسٹ ہے، آپ کو احتیاط برتنی چاہیے جس پر کرسی پر بیٹھی گاہک نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں وہ طالبان کے گھرانے سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔"
یہ کہنا ہے مرسل نبرد کا جنہیں حال ہی میں طالبان کے حکم کے بعد اپنا پارلر بند کر کے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
مرسل کے مطابق جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا تو انہیں اپنے کاروبار کی فکر لاحق ہو گئی تھی۔ تاہم اس کے برعکس ان کا کاروبار بڑھتا گیا جس کی بڑی وجہ طالبان گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد تھی جو ان کے پارلر کا رُخ کر رہی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مرسل نے بتایا کہ بیوٹی پارلر بند کرنے کے حکم نامے پر اُنہوں نے طالبان گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سے کہا کہ وہ طالبان کو سمجھائیں کہ ایسا نہ کریں۔
مرسل کے بقول طالبان کی خواتین نے انہیں بتایا کہ یہ حکم نامہ ان کے مردوں کی جانب سے نہیں بلکہ مرکزی قیادت کی جانب سے جاری ہوا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان حکومت نے رواں برس جولائی میں ایک حکم نامے کے ذریعے خواتین کے بیوٹی سیلون بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس اعلان پر خواتین کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
افغانستان ویمن چیمبر آف کامرس کے مطابق اس فیصلے سے ملک بھر میں 12 ہزار بیوٹی پارلرز اور یہاں کام کرنے والی 60 ہزار خواتین بے روزگار ہو گئی ہیں۔
افغان طالبان نے اس سے قبل خواتین کے پارکس یا تفریحی مقامات اور میلوں پر جانے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ افغان طالبان نے سیکنڈری اسکولز کی طالبات کو اسکول جانے سے بھی روک دیا تھا۔
افغانستان میں طالبان کو اقتدار سنبھالنے کے دو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ایسے حال میں جب کہ ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ طالبان کی جانب سے بیوٹی پارلرز پر پابندی ملک بھر میں مزید بے روزگاری کا سبب بن رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ژالہ عارفی کابل کے وسط میں قائم، انٹرنیشنل برینڈز کے لیے مشہور مال 'گل بہار سینٹر' میں گزشتہ سات برسوں سے کاسمیٹکس کی دکان چلاتی ہیں۔
ان کے مطابق بیوٹی پارلر کی بندش کے اعلان کے بعد ان کا کام 70 فی صد متاثر ہوا ہے۔ ان کے مطابق طالبان کے اس اقدام کے بعد افغان خواتین آمدن کے ایک اور ذریعے سے محروم ہو رہی ہیں۔
ناقدین کہتے ہیں کہ دو برسوں میں افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال خراب ہوئی ہے۔ ایسے میں اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں امداد کی مد میں جمع کیے گئے مالی وسائل ضرورت سے کہیں کم ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک، ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی خبردار کیا ہے کہ وسائل میں کمی کے باعث آنے والے وقت میں خواتین اور بچوں سے متعلق پروگرام برُی طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔
مرسل نبرد کے مطابق ان کے گھر کی تمام تر ضروریات پوری کرنے کا دارومدار ان کے بیوٹی پارلر چلانے پر منحصر تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پانچ بچوں کی تعلیم اور اخراجات کا واحد ذریعہ بھی یہی پارلر تھا۔
مرسل کے مطابق ان کے شوہر بیمار ہیں اور کام کاج نہیں کر سکتے ہیں۔ اب جب ان کا سیلون بند کر دیا گیا ہے تو نہ صرف یہ کہ انہیں بچوں کی تعلیم، گھر کا کرایہ بلکہ شوہر کی دوائیاں خریدنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مرسل کے مطابق طالبان کو چاہیے کہ خواتین سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرِثانی کریں۔
کابل کی گلیوں میں کچھ خواتین کے ریڑی لگا کر روزگار کمانے کا حوالہ دیتے ہوئے مرسل نبرد نے کہا کہ آیا ایک عورت کا چار دیواری میں سیلون کا کام زیادہ باعزت کام ہے یا شہر کے وسط میں ریڑی لگا کر کام کرنا؟
مرسل کا مزید کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ بیوٹی سیلون میں اسکولوں اور یونیورسٹی والی لڑکیاں اور خواتین ہی آتی تھیں بلکہ گزشتہ دو برسوں کے دوران ان کے گاہکوں میں زیادہ تر تعداد خود طالبان گھرانوں کی خواتین کی ہی تھی۔
خیال رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد اُن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خصوصاً خواتین سے متعلق اُن کے سخت فیصلوں پر تنقید کا سامنا ہے۔
افغان طالبان کا مؤقف رہا ہے کہ وہ شریعت کے تحت یہ فیصلے کر رہے ہیں، لہذٰا کسی دوسرے ملک کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔