طالبان کی پرتشدد کارروائیوں سے امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے: امریکہ

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے مطابق طالبان نے اتحادی فورسز اور شہروں میں حملے روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں لیکن وہ دیہی علاقوں میں افغان شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکہ نے متنبہ کیا ہے کہ طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی ناقابلِ قبول ہے۔ ان کارروائیوں سے افغانستان میں امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگس نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ "ہم تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان نے اتحادی فورسز اور شہروں میں حملے روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ لیکن وہ دیہی علاقوں میں افغان شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کو تبدیل ہونا چاہیے۔

ترجمان کے بقول تشدد کی کارروائیاں کسی کے بھی مفاد میں نہیں اور ان سے امن عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ طے پانے والے امن معاہدے کے بعد طالبان نے امریکی اور اتحادی فورسز پر حملے روک دیے تھے۔ تاہم افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف اُن کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔

اس معاہدے کے تحت 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات کے مرحلے کا آغاز ہونا تھا لیکن کابل میں صدارتی انتخابات کے نتائج پر اختلافات اور طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے باعث اگلا مرحلہ شروع نہیں ہو سکا۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی ترجمان نے مزید کہا کہ افغان صدر اشرف غنی نے امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ عبداللہ عبداللہ اور دیگر رہنماؤں سے مشاورت کر رہے ہیں اور آئندہ چند روز میں طالبان سے ہونے والے بین الافغان مذاکرت کے لیے جامع ٹیم کا اعلان کریں گے۔

ترجمان نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی ہے جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی کوششوں کی حمایت کی ہے۔

امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد میں طالبان اور افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اعتماد کی بحالی کے اقدامات کو جاری رکھیں اور بین الافغان مذاکرات کی طرف جلد پیش رفت کریں۔

امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت کی قید میں طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کے بدلے ایک ہزار افغان قیدیوں کی رہائی عمل میں آنا تھی۔

اسی سلسلے میں صدر اشرف غنی نے منگل کو طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے صدارتی فرمان بھی جاری کر دیا ہے۔

افغان حکومت کے ترجمان صادق صدیقی نے ٹوئٹر پر اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ رہائی پانے والے قیدیوں کو تحریری طور پر اس بات کا اقرار کرنا ہوگا کہ وہ جنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔

صادق صدیقی کے بقول طالبان کے 1500 قیدیوں کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کیا جائے گا اور اُن کی رہائی کا عمل 14 مارچ سے شروع ہو گا۔

ترجمان کے بقول افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہِ راست بات چیت شروع ہونے کے بعد دیگر ساڑھے تین ہزار قیدیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔ تاہم یہ رہائی تشدد میں نمایاں کمی سے مشروط ہے۔

قبل ازیں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہوں نے پانچ ہزار قیدیوں کی فہرست امریکہ کے حوالے کر دی ہے جس میں ان کے بقول کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ہے۔

سہیل شاہین نے مزید کہا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی اُنہیں قابل قبول ہو گی جن کی تصدیق اُن کی ٹیم کرے گی۔