ٹھٹھہ کی درگاہیں۔۔ مریضوں کا ’آسرا‘ بن گئیں

افسوس یہ ہے کہ آج کے جدید ترین دور میں بھی درگاہیں کمزور عقائد اور بد اعتقادی کے سبب ’روحانی علاج گاہیں‘ بنی ہوئی ہیں، جہاں لوگ اپنے مسئلوں کا حل ڈھونڈنے جوق در جوق آتے ہیں
سندھ کا چھوٹا سا، مگر انتہائی معروف علاقہ, ’ٹھٹھہ‘۔۔ کراچی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اِس کی وجہٴشہرت یہ ہے کہ ایشیاٴ میں اسلام ٹھٹھہ سے ہی پھیلا تھا۔ ایشیا کی پہلی مسجد بھی یہیں واقع ہے۔ متعدد معروف عالم دین ٹھٹھہ ہی میں پیدا ہوئے۔۔ اور آج بھی بہت سے بزرگان دین یہاں تہہ با خاک ہیں، مثلاً شاہ یقیق، عبد اللہ شاہ اصحاب، شاہ گور گنج، شاہ مراد شاہ شیرازی، محمد ہشام ٹھٹھوی، پیر پاتھو، جمیل شاہ داتار، شیخ حالی، حاجی اللہ ڈنو میندھرو، صوفی شاہ عنایت اور شاہ پریوں ستیوں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اِن بزرگان دین کی تعلیمات آگے بڑھائی جاتیں، ان کی دینی ریاضت سے فیض حاصل کیا جاتا۔ لیکن، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج کے جدید ترین دور میں بھی بزرگان دین کی درگاہیں کمزور عقائد اور بداعتقادی کے سبب ’روحانی علاج گاہیں‘ بنی ہوئی ہیں، جہاں لوگ اپنے مسئلوں کا حل ڈھونڈنے جوق در جوق آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دور دراز سے سفر کرکے ان درگاہوں تک پہنچتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ان کی مشکلات اور پریشانیاں صاحب مزار کے طفیل سے حل ہوجائیں گی۔۔۔

درگاہوں پر حاضری دینے والوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ یہ سب عقیدے کی بات ہے۔ مرادیں جب پوری ہوتی ہیں جب آپ کا ’عقیدہ پکا‘ ہو۔

اِن درگاہوں اور یہاں علاج کی غرض سے آنے والے لوگوں سے متعلق پاکستان کے ایک مؤقر اخبار ’ایکسپریس ٹریبون‘ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ دلچسپی کی غرض سے اس رپورٹ کا اختصار یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔

عقیدے کی پختگی
آسیہ بی بی 26سالہ نوجوان حذیفہ کی ماں ہیں۔حذیفہ کو گردوں کی بیماری میں مبتلہ ہے اور آسیہ بی بی کو یقین ہے کہ ان کے بیٹے کی بیماری حضرت سید شاہ یقیق بابا کے روحانی معجزے سے دور ہو جائے گی۔

اپنے نیم بے ہوش بیٹے کے سوجے ہوئے جسم پر شاہ یقیق بابا کے مزار کی مٹی کا لیپ کرکے صبر سے انتظار کرنے والی سانگھڑ کی آسیہ بی بی نے بتایا کہ وہ کچھ مہینے پہلے اپنے بیٹے کو جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر کراچی لے کر گئی تھیں۔ لیکن، ان کی دواوٴں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اُن کے بقول، ’میرا بیٹا ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ اسی لئے، بابا نے میرے خواب میں آکر مجھے ہدایات دیں‘۔

اب وہ اپنے بیٹے کو علاج کے لئے ’روحانی سرجن‘ کے پاس لائی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کا بیٹا روحانی علاج سے بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔

لیکن، اس روحانی علاج کے دوران کچھ پابندیاں بھی ہیں جنھیں نبھانا ضروری ہے۔حذیفہ تین راتوں کے بعد صحت مند ہوجاتا۔ لیکن، وہ کہتی ہیں کہ، ’میں بابا کی اجازت کے بغیر مزار سے واپس چلی گئی جس کے بعد حذیفہ کی حالت نازک ہوگئی۔ غلطی میری ہے۔ مجھے بابا کی اجازت کے بغیر مزار نہیں چھوڑنا چاہئے تھا‘۔


صرف یقین کرنے والوں کے لئے

آسیہ شاہ یقیق کے مزار پر پہلی مرتبہ دس سال پہلے آئیں تھیں اور اس کے بعد ان کی مرید ہو گئیں۔ آسیہ اپنے شوہر اور بیٹی کو بھی مزار پر لاتی ہیں۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے عبدالغفار بھی ایسے ہی پختہ یقین رکھنے والے مرید ہیں۔ ان کو مزار پر رہنے والے ’پرانا مریض‘ بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مزارپر ’بدروح‘ سے نجات حاصل کرنے آئے تھے جس کا ان پر اثر ہوگیا تھا۔

عبدالغفار کے مطابق، ’ان پر یہ جادو خاندان کے لوگوں نے جائیداد کے چکر میں کروایا تھا۔ مزار پرآنے کے بعد مجھے سکون ملا۔ اور ایسا بابا کی کرامت کی وجہ سے ہوا۔ بابا کسی کی بھی زندگی پرسکون بنا سکتے ہیں۔‘

صالح محمد ہر ہفتے کراچی کے علاقے کورنگی سے شاہ یقیق کے مزار پر آتے ہیں۔ کراچی کے نامور ڈاکٹروں میں سے کوئی بھی ان کے 16سالہ بیٹے کلیم کا علاج نہیں کرسکا۔

باتوں کے دوران کلیم، جس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، ادھر ادھر بھاگتا اور اپنے باپ سے کھیلنے کی اجازت مانگتا رہا۔ صالح محمد کا کہنا تھا کہ پہلے کلیم نیند کی دوا کا عادی تھا لیکن اب وہ بغیر نیند کی دوا کے سکون سے سوتا ہے۔ ان کے گھر والوں کو یقین ہے کہ کلیم بہت جلد صحت یاب ہوجائے گا۔


شاہ یقیق کے مزار سے پانچ منٹ کی دوری پر شہنشاہ حضرت عبداللہ شاہ بابا بخاری عرف جلالی شاہ بابا کا مزار واقع ہے، جو مریضوں کو صحت یاب کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ یہاں موجود زیادہ تر مریض بچے ہیں جن کو زنجیروں سے ہاتھ پاوٴں باندھ کر رکھا گیا ہے، تاکہ وہ خود کو یا کسی اور کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔

شاہین، جس کی عمر 39سال ہے، مزار پر موجود مریضوں میں شامل ہے۔ وہ ادھر ادھر دوڑتی پھرتی ہے اور خود سے باتیں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ شاہین کے شوہر نیاز احمد نے بتایا کہ ان کی کوئی اولاد نہیں۔ وہ شاہین کو کسی ڈاکٹر کے پاس اس لئے نہیں لے کر گئے کیوں کہ ان کو پتا ہے کہ شاہین پر بد روحوں کا اثر ہے اس لئے ڈاکٹرز کچھ نہیں کر سکتے۔

بابا کے معجزے

مزار پر پابندی سے آنے والوں کے علاوہ سندھ کے محکمہٴاوقاف کی جانب سے تعینات کئے گئے خدام بھی مزار پرحاضری دینے والوں کو خصوصی تیل، پھولوں کی پتیوں، مٹی اور پانی کے فائدوں اور بابا کی کرامتوں کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔

مزار پر موجود ایک زائر محمد یعقوب نے تجویز پیش کی کہ کیونکہ مزاروں پر کچھ مریض ایسے بھی آتے ہیں جن کو میڈیکل ایڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے، حکومت کو مزاروں کے قریب اسپتال قائم کرنے چاہئیں۔ حکومت اور علما بھی اس صورتحال کے ذمہ دار لگتے ہیں، جو بظاہر لوگوں کو علاج کرانے کے بارے میں نہ ہدایت دیتے ہیں اور نہ ہی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یوں، سیکڑوں لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ مختلف مزاروں پر حاضری دیتے ہیں۔