افغان سرحد سے ملحقہ علاقے شمالی وزیرستان میں ایک مشتبہ دہشت گرد حملے میں پولیٹیکل انتظامیہ کا ایک عہدیدار ہلاک اور مقامی سکیورٹی فورس کے تین اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ واقعہ ہفتہ کی صبح رزمک روڈ پر واقع کم سروبی نامی علاقے میں پیش آیا جہاں پولیٹیکل محرر حامد اللہ کبل خیل خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کے ساتھ معمول کے گشت پر تھے کہ ان کی گاڑی پر نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کر دی۔
فائرنگ سے حامد اللہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جب کہ تین خاصہ دار اہلکار زخمی ہوگئے جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ ایک خاصہ دار اہلکار لاپتا ہے اور شبہ ہے کہ حملہ آور اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
رواں ہفتے ہی قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختنونخوا میں انضام کی قانونی کارروائی کے بعد شمالی وزیرستان میں پیش آنے والے یہ پہلا مہلک حملہ ہے۔
حامد اللہ کے والد بھی پولیٹیکل انتظامیہ کے ایک عہدیدار رہ چکے ہیں اور وہ بھی دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی ایک کارروائی میں مارے گئے تھے۔
افغان سرحد سے ملحقہ اس علاقے میں دہشت گردوں نے محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی تھیں جن کے خلاف 2014ء میں پاکستانی فوج نے بھرپور کارروائیاں کرتے ہوئے اس علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کا بتایا تھا۔
تاہم اس کے باوجود دہشت گردی کے اکا دکا واقعات دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔
دہشت گردوں کو مار بھگانے کے بعد شمالی وزیرستان میں بحالی و تعمیر نو کے کام کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کی طرف سے یہاں بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں اور دیگر دیسی ساختہ بموں کو بھی ناکارہ بنانے کا کام جاری ہے۔
فوجی آپریشن کے بعد یہاں سے نقل مکانی کر جانے والے ہزاروں خاندانوں میں سے اکثر یہاں واپس آ چکے ہیں لیکن ان کے حالات زندگی تاحال معمول پر نہیں آ سکے ہیں جس کی وجہ وسائل کی کمی اور ایک بڑے فوجی آپریشن کے بعد بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی بتائی جاتی ہے۔