کراچی میں دہشت گردی کی نئی لہر سیکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج

کراچی میں ایک ہفتے کےد وران دو بم دھماکوں میں دو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔

پاکستان کے معاشی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک ہفتے کے دوران دو بم دھماکوں کے بعد سیکیورٹی سے متعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

بعض سیکیورٹی تجزیہ کار اسے ایک جانب سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی سے تعبیر کررہے ہیں تو دوسری جانب صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں سیف سٹی منصوبہ کا تصور پیش ہوئے ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے کہ لیکن تاحال اس پرکام شروع نہیں ہوسکا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی اس منصوبے میں تاخیر کا اعتراف خود کرچکے ہیں۔ منصوبے کے تحت 10 ہزار نئے کیمرے دو ہزار مقامات پر تین مراحل میں نصب کیے جانے ہیں۔

کنسلٹنٹ کے مطابق منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 29 ارب روپے کے قریب ہے۔ پہلے مرحلے میں 3000 نئے کیمروں کی تنصیب کی منظوری دی جاچکی ہے جس کی لاگت کا تخمینہ چار ارب روپے لگایا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے سیف سٹی اتھارٹی کو ایک سال کے اندر پہلا مرحلہ مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے علاوہ سندھ پولیس کی ہزاروں خالی آسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی گئی ہیں اور شہر میں چلنے والے 40 لاکھ کے قریب موٹر سائیکلوں پر ٹریکرز کی تنصیب کا منصوبہ بھی التواء کا شکار ہے۔ ان منصوبوں میں تاخیر کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کی کارروائیوں پر قابو پانے میں رکاوٹ قرار دیا جارہا ہے۔

رواں ماہ پہلا دھماکہ جمعرات کو شہر کے مرکزی علاقے صدر میں ہوا جس میں پاکستان کوسٹ گارڈ کی کھڑی گاڑی کو موٹر سائیکل پر نصب دھماکہ خیز مواد سے ٹارگٹ کیا گیاتھا۔ اس واقعے میں کوسٹ گارڈ کے دو اہل کاروں سمیت 12 افراد زخمی اور ایک شہری ہلاک ہوا تھا۔ حملے کے بعد سندھو دیش ریولوشنری آرمی نامی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اسی طرح پیر کی رات میٹھا در کے علاقے بمبئی بازار میں بم دھماکے میں ایک خاتون ہلاک جب کہ 16 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ حکام کے مطابق حملے کا نشانہ قریب ہی موجود پولیس موبائل تھی۔ تاہم اب تک کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

SEE ALSO: کراچی دھماکہ: ذمے داری قبول کرنے والی 'سندھو دیش ریولوشنری آرمی' کب اور کیسے بنی؟

اس کے علاوہ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں جامعہ کراچی میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی ہوئی تھی اور خود کش حملے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئےتھے۔ یہ چینی باشندے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں چینی زبان اور ثقافت کی تعلیم و تدریس میں مصروف تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی نے قبول کی تھی۔

’افغانستان اور ایران سے مدد ‘

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزشہ برس حکومت کی تبدیلی کے بعد وہاں موجود دہشت گرد عناصر کو کھُلی آزادی مل چکی ہے اور وہاں برسر اقتدار طالبان حکومت اب تک ان پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔

سیکیورٹی تجزیہ کار اکرام سہگل کا خیال ہے کہ ایسے گروہ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بھی فعال نظر آرہے ہیں جہاں فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر کئی بڑے حملے کئے جاچکے ہیں جن میں بڑا جانی نقصان ہوچکا ہے۔ فروری میں پنجگور اور نوشکی میں قائم فرنٹئیر کورکے ہیڈ کوارٹر پر مسلح حملوں میں فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

اکرام سہگل کے خیال میں اسی طرح اب یہ گروہ کراچی میں بھی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے دہشت گرد گروہوں کو افغانستان اور ایران دونوں ممالک کی سرزمین سے مدد مل رہی ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مقامی آبادی کی ہمدردیاں حاصل کرکے بہ آسانی یہ کارروائیاں کررہے ہیں۔

تاہم ایران کی حکومت اور افغانستان میں برسرا قتدار طالبان حکومت کئی بار پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والے گروہوں کی کسی مدد کی تردید کرتے آئے ہیں۔

بلوچستان میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملوں کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا جس میں دہشت گردی کے واقعات کو دونوں ممالک کے تعلقات خراب کرنے کی سازش قرار دیا گیا تھا۔

SEE ALSO: پاکستان: چینی شہریوں پر حملوں سے سی پیک منصوبوں پر کیا اثر ہوسکتا ہے؟

سیکیورٹی اداروں کی ناکامی؟

کراچی میں ہونے والے واقعات پر یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ آخر دہشت گرد عناصر کو کنٹرول کرنے میں سیکیورٹی ادارے کیوں ناکام ہورہے ہیں؟ سیکیورٹی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ چینی شہریوں پر خود کش حملے اور پھر رواں ماہ ہونے والی کارروائیوں میں ممکنہ طور پر شہر میں موجود دہشت گردوں کے سلیپر سیلز استعمال ہوسکتے ہیں جو اس مقصد کےلیے رہائش اور دیگر لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ البتہ اب تک اس حوالے سے تحقیقات میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت امن و امان کی بحالی کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے اور اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جامعہ کراچی میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کی تحقیقات میں بھی پیش رفت ہوئی ہے اور اس بارے میں کچھ کامیابی ملی ہے تاہم وہ اس وقت معلومات سامنے نہیں لانا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد کہیں بھی ہوں انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ اور حکومت ایسے واقعات سے بالکل مرعوب نہیں ہوگی۔

وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا ہے تھا کہ رواں سال جنوری سے 15 مئی تک پورے ملک میں 219 دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں جن میں خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں 104، 104 واقعات ہوئے ہیں جن میں 123 افراد جاں بحق ہوئے۔ جب کہ سندھ میں دہشتگردی کے 11 واقعات ہوئے جن میں 7 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ سندھ میں دہشت گردی کے واقعات نسبتاً کم ہوئے ہیں لیکن یہ بھی کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔ ان واقعات کے بعد انٹیلی جینس کی ناکامی پر بھی بات ہوئی ہے۔ ہم دہشت گردی کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کریں گے۔