پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن سے قبل ہی سیاسی رہنماؤں اور صحافتی حلقوں کی جانب سے اس کے متنازع ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
انتخابی عمل کے ابتدائی مراحل ہی میں پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتیں ان کی ساکھ پر سوال اٹھا رہی ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ عمران خان سمیت اس کے 90 فی صد مرکزی رہنماؤں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے جا چکے ہیں۔
پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا ہے کہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں ریٹرنگ افسران، نگراں حکومت، پولیس اور الیکشن کمیشن ان کے سیاسی حریف نواز شریف کی سہولت کاری کر رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل ہی یہ دکھائی دے رہا ہے کہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور انتخابات متنازع ہو جائیں گے۔
تاہم نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کے متنازع ہونے کے خدشات کی نفی کرتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ یہ باور کراتے رہے ہیں کہ شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا۔
نگراں حکومت بھی کہتی رہی ہے کہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی۔
SEE ALSO: عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے کئی مرکزی رہنماؤں کے کاغذاتِ نامزدگی مستردمزید تنازعات سامنےآنے کا اندیشہ
ایسے میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا آئندہ انتخابات کے نتائج متنازع ہو سکتے ہیں؟ اور اس کے ملک اور سیاست پر کیا اثرات ہوں گے؟
صحافی و تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات متنازع ہو جائیں گے اور ایک جماعت اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک جماعت کے رہنما اعلانیہ اظہار کر رہے ہیں کہ انتخابی نتائج ان کے حق میں نہ آنے تو وہ طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔
صحافی زاہد حسین کہتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے ہی یہ متنازع ہو چکے ہیں اور ایک مخصوص جماعت کو برابری کا ماحول نہیں دیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد حسین نے کہا کہ انتخابات سے قبل دھاندلی کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک جماعت کے سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور بعد ازاں وہ رہنما اپنی جماعت سے علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں۔
زاہد حسین کے مطابق ان وجوہات کی بنیاد پر انتخابات کی ساکھ پر پہلے سے سوالات اٹھ رہے ہیں اور الیکشن کے دنوں میں مزید تنازعات سامنے آئیں گے۔
انتخابی عمل کی شفافیت کا جائزہ لینے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کے ترجمان مدثر رضوی کہتے ہیں کہ انتخابی عمل پر سوالات اس بنا پر بھی ہیں کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد مقررہ مدت میں الیکشن نہیں ہوئے اور اب بھی انتخابات کی تاریخ سپریم کورٹ نے دلوائی۔
SEE ALSO: الیکشن 2024: مسلم لیگ (ن) کو سندھ میں اتحادیوں سے کیا توقعات ہیں؟وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پس منظر کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پائے جاتے ہیں اور وہ بعض اوقات حقائق کی بنیاد پر اور بعض اوقات غیر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر انتخابی عمل پر سوال اٹھاتے ہیں۔
مدثر رضوی نے کہا کہ ماضی میں الیکشن کو انتخابی عمل مکمل ہونے اور نتائج آنے سے قبل چیلنج نہیں کیا جاتا تھا۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کا ریاستی اداروں اور الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد رہا ہے جس بنا پر انتخابات پر ابھی سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی الیکشن کمیشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے انتخابی طریقۂ کار، حلقہ بندیوں اور نشستوں کی تقسیم پر سوالات اٹھائے تھے۔
وکلا کی ان نمائندہ تنظیموں نے عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے پر بھی زور دیا تھا۔
SEE ALSO: 'لیول پلیئنگ فیلڈ' نہ ملنے کی شکایات؛ کیا مسلم لیگ (ن) کو زیادہ 'اہمیت' مل رہی ہے؟’الیکشن متنازع ہوئے تو نقصان سب کا ہوگا‘
مبصرین خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ انتخاباتی عمل متنازع ہونے سے ملک میں سیاسی بگاڑ پیدا ہوگا جو پاکستان میں جمہوریت پر دور رس اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات کو جان بوجھ کر متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا نقصان کسی ایک سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ سب کو ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو اپنے ابتدائی دور ہی میں مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا ہوگا کیوں کہ ایک جماعت انتخابی نتائج کو تسلیم کرے گی اور نہ ہی حکومت کو کام کرنے دے گی۔
زاہد حسین نے کہا کہ الیکشن کا مقصد نمائندہ حکومت کا قیام ہوتا ہے جو کہ اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے عوام کی امنگوں کو پورا کرے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ متنازع انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت پر سوالات ہوں گے اور وہ اپنی ساکھ نہ ہونے کی بنا پر پائیدار حکومت ثابت نہیں ہوسکے گی۔
مدثر رضوی کے مطابق الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں تو یہ ایک طرح سے اعتماد کا اظہار ہے جو کہ انتخابی عمل کو بنیادی ساکھ مہیا کرتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل اعتراضات اٹھاتی رہتی ہیں تاہم الیکشن کے نتائج مکمل ہونے کے بعد ہی ان خدشات کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی حتمی رائے دی جاسکتی ہے۔